روزانہ ملوں یار سے یا شب ہو ملاقات
کیا فکر کروں میں کہ کسو ڈھب ہو ملاقات
نے بخت کی یاری ہے نہ کچھ جذب ہے کامل
وہ آ بھی ملے تو ملے پھر جب ہو ملاقات
دوری میں کروں نالہ و فریاد کہاں تک
اک بار تو اس شوخ سے یا رب! ہو ملاقات
جاتی ہے غشی بھی کبھو آتے ہیں بہ خود بھی
کچھ لطف اُٹھے بارے اگر اب ہو ملاقات
وحشت ہے بہت میرؔ کو مل آئیے چل کر
کیا جانیے پھر یاں سے گئے کب ہو ملاقات
Similar Threads:



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks