ابھی مجھے اک صدا کی ویرانی سے گزرنا ہے
ایک ،مسافت ختم ہوئی، اک سفر ابھی کرنا ہے
گری ہوئی دیواروں میں جکڑے سے ہوئے دروازوں کی
خاکستر سی دہلیزوں پر سرد ہوا نے ڈرنا ہے
ڈر جانا ہے دشت و جبل نے تنہائی کی ہیبت سے
آدھی رات کو جب مہتاب نے تاریکی سے ابھرنا ہے
یہ تو آغاز ہے جیسے اُس پہنائے حیرت کا
آنکھ نے اور سنور جانا ہے رنگ نے اور نکھر جانا ہے
جیسے زر کی پیلاہٹ میں موجِ خون اترتی ہے
زہرِ زر کے تند نشے نے دیدہ و دل میں اترنا ہے
٭٭٭



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote
Bookmarks