Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
ہونی دے حیلے
کس دا دوش سی کس دا نئیں سی
ایہہ گلاں ہن کرن دیاں نئیں
ولیے لنگھ گئے توبہ والے
راتاں ہوکے بھرن دیاں نئیں
جو ہویا ایہہ ہونا ای سی
تے ہونی روکیاں روکدی نئیں
اک واری جدوں شروع ہو جاؤے
گل فیر اینویں مکدی نئیں
کج انج وی راہیوں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
٭٭٭
اک اجاڑ شہر
سارے لوکی ٹر گئے نال قضا
گلیاں ہوکے بھر دیاں روندی پھرے ہوا
کندھاں سُنج مسنجیاں* کوٹھے وانگ بلا
کوکاں دین حویلیاں ساڈے ول آ
اجڑے پئے مدان وچ بادشاہوں دے رتھ
قبراں دے وچ سوں گئے مہندیاں والے ہتھ
٭٭٭
ہیں رواں اُس راہ پر جس کی کوئی منزل نہ ہو
جستجو کرتے ہیں اس کی جو ہمیں حاصل نہ ہو
دشت نجدِ یاس میں دیوانگی ہو ہر طرف
ہر طرف محمل کا شک ہو پر کہیں محمل نہ ہو
وہم یہ تجھ کو عجب ہے اے جمال کم نما
جیسے سب کچھ ہو مگر تو دید کے قابل نہ ہو
وہ کھڑا ہے اک باب علم کی دہلیز پر
میں یہ کہتا ہوں اُسے اس خوف میں داخل نہ ہو
چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
٭٭٭
کیا خبر کیسی ہے وہ سوادائے سر میں زندگی
ایک سرائے رنج میں ہے یا سفر میں زندگی
ظلم کرتے ہیں کسی پر اور پچھتاتے ہیں پھر
ایک پچھتاوا سا ہے اپنے نگر میں زندگی
ہم ہیں جیسے اک گناہِ دائمی کے درمیاں
کٹ رہی ہے مستقل خاموش ڈر میں زندگی
اک تغیر کے عمل میں ہے جہاں بحر و بر
کچھ نئی سی ہو رہی ہے بحر و بر میں زندگی
یہ بھی کسی زندگی ہے اپنے لوگوں میں منیر
باہمی شفقت سے خالی ایک گھر میں زندگی
٭٭٭
چار دن اس حسن مطلق کی رفاقت میں کٹے
اور اس کے بعد سب دن اس کی حسرت میں کٹے
اس جگہ رہنا ہی کیوں* ان شہروں کے درمیاں
وقت سارا جس جگہ بے جا مروت میں کٹے
اک قیام دلربا رستے میں ہم کو چاہیے
چاہے پھر باقی سفر راہِ مصیبت میں کٹے
چاند پیڑوں سے پرے ہو رک گئی ہوں بارشیں
کاش وہ لمحہ کبھی اُس بت کی صحبت میں کٹے
اک مثالِ بے مثال اب تک ہیں اپنے درمیاں
جن کے بازو جسم و دل حق کی شہادت میں لٹے
کاٹنا مشکل بہت تھا ہجر کی شب کی شب کو منیر
جیسے ساری زندگی غم کی حفاظت میں کٹے
٭٭٭
کتاب عمر کا اک اور باب ختم ہوا
شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہوا
ہوئی نجات سفر میں فریبِ صحرا سے
سراب ختم ہوا اضطراب ختم ہوا
برس کے کھل گیا بادل ہوائے شب کی طرح
فلک پہ برق کا وہ پیچ و تاب ختم ہوا
جواب وہ نہ رہا میں کسی کے آگے منیر
وہ اک سوال اور اس کا جواب ختم ہوا
٭٭٭
پنجابی کلام
پت جھر دی شام
وا چلے تے گھر وچ بیٹھیاں کڑیاں دا جی ڈر دا اے
اچیاں اچیاں رکھاں ہیٹھاں پتراں دا مینہ ورہدا اے
لمیاں سُنجیاں گلیاں دے وچ سورج ہوکے بھردا
اپنے ویلے توں وی پہلے تارے ٹمکن لگے نیں
گھپ ہنریاں سوچاں اند دکھ دے دیوئے جگے نیں
دریاواں تے ڈھلدے دن پرچھانوں پیا تردا اے
ہلے تے پتھراں دا وی جی رون نوں کر دا اے
٭٭٭
اُس کا نقشہ ایک بے ترتیب افسانے کا تھا
یہ تماشا تھا یا کوئی*خواب دیوانے کا تھا
سارے کرداروں میں بے رشتہ تعلق تھا کوئی
ان کی بے ہوشی میں غم سا ہوش آ جانے کا تھا
عشق کیا ہم نے کیا آوارگی کے عہد میں
ایک جتن بے چینیوں سے دل کو بہلانے کا تھا
خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت
شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا
لے گیا دل کو جو اس محفل کی شب میں اے منیر
اس حیسں کا بزم میں انداز شرمانے کا تھا
٭٭٭
غم میں تمام رات کا جاگا ہوا تھا میں
صبحِ چمن میں چین سے سویا ہوا تھا میں
ایک ہفت رنگ ہار گرا تھا مرے قریب
اک اجنبی سے شہر میں آیا ہوا تھا میں
ترتیب مجھ کو پھر سے نئی عمر سے دیا
اک عمر کے طلسم میں بکھرا ہوا تھا میں
پہچان سا رہا تھا میں اطراف شام میں
ان راستوں سے پہلے بھی گزرا ہوا تھا میں
میں ڈر گیا تھا دستکِ غم خوار یار سے
کچھ حادثات دہر سے سہما ہوا تھا میں
خود کھو گیا میں خواہشِ بے نام میں منیر
گھر سے کسی تلاش میں نکلا ہوا تھا میں
٭٭٭
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks