Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
ایک دوزخی شہر پر بادلوں کے لیے دعا
گرم رنگ پھولوں کا
گرم تھی مہک اُن کی
گرم خون آنکھوں میں
تیز تھی چمک اُن کی
سوچتا ہوں کیا اُس کو
اس حسیں کی باتوں کو
دیکھتا میں کیا اُس کے
خاک رنگ ہاتھوں کو
خوف تھا تمازت میں
عیشِ شب کی شدت کا
در کھلا تھا دوزخ کا
لمس لب کی حدت کا
میں جواب کیا دیتا
اُس کی ان اداؤں کا
ایک شہرِ مردہ میں
دور کی نداؤں کا
سحر زرد باطن میں
پانچ بند اسموں کا
بن گیا تھا جسموں میں
زہر پانچ قسموں کا
٭٭٭
بے سود سفر کے بعد آرام کا پل
پھر ہری بیلوں کے نیچے بیٹھنا شام و سحر
پھر وہی خوابِ تمنا پھر وہی دیوار و در
بلبلیں، اشجار، گھر شمس و قمر
خوف میں لذت کے مسکن، جسم پر اُن کا اثر
موسموں کے آنے جانے کے وہی دل پر نشاں
سات رنگوں کے علم نیلے فلک تک پر فشاں
صبح دم سونے محلے پھیکی پھیکی سہہ پہر
پھول گرتے دیکھنا شاخوں سے فرشِ شام پر
خواب اُس کے دیکھنا موجود تھا جو بام پر
پھر ہری بیلوں کے نیچے بیٹھنا شام و سحر
٭٭٭
حمد قدیم
کیسے گزرے شام
کیوں کر آئے یاد
وہ بھولا ہوا نام
بے چینی ہو دور
دل کو ملے آرام
کب یہ بے کل شام
رنج سے ہو آزاد
کب یہ سونا باب
پھر ہوگا آباد
یہ دیوارِ آب
کیسے ہو پایاب
٭٭٭
رستے
ایہہ رستے ایہہ لمے رستے
کیڑے پاسےجاندے نیں
بوہت پرانے محلاں اندر
وچھڑے یار ملاندے نیں
اُچیاں ڈونگھیاں جنگلاں اندر
شیراں وانگ ڈراندے
یاں فیر ایویں گھم گھما کے
واپس موڑ لیاندے
٭٭٭
ہونی دے حیلے
کس دا دوش سی کس دا نئیں سی
ایہہ گلاں ہن کرن دیاں نئیں
ولیے لنگھ گئے توبہ والے
راتاں ہوکے بھرن دیاں نئیں
جو ہویا ایہہ ہونا ای سی
تے ہونی روکیاں روکدی نئیں
اک واری جدوں شروع ہو جاؤے
گل فیر اینویں مکدی نئیں
کج انج وی راہیوں اوکھیاں سن
کجھ گل وچ غم دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوک وی ظالم سن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
٭٭٭
اک اجاڑ شہر
سارے لوکی ٹر گئے نال قضا
گلیاں ہوکے بھر دیاں روندی پھرے ہوا
کندھاں سُنج مسنجیاں* کوٹھے وانگ بلا
کوکاں دین حویلیاں ساڈے ول آ
اجڑے پئے مدان وچ بادشاہوں دے رتھ
قبراں دے وچ سوں گئے مہندیاں والے ہتھ
٭٭٭
ہیں رواں اُس راہ پر جس کی کوئی منزل نہ ہو
جستجو کرتے ہیں اس کی جو ہمیں حاصل نہ ہو
دشت نجدِ یاس میں دیوانگی ہو ہر طرف
ہر طرف محمل کا شک ہو پر کہیں محمل نہ ہو
وہم یہ تجھ کو عجب ہے اے جمال کم نما
جیسے سب کچھ ہو مگر تو دید کے قابل نہ ہو
وہ کھڑا ہے اک باب علم کی دہلیز پر
میں یہ کہتا ہوں اُسے اس خوف میں داخل نہ ہو
چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
٭٭٭
کیا خبر کیسی ہے وہ سوادائے سر میں زندگی
ایک سرائے رنج میں ہے یا سفر میں زندگی
ظلم کرتے ہیں کسی پر اور پچھتاتے ہیں پھر
ایک پچھتاوا سا ہے اپنے نگر میں زندگی
ہم ہیں جیسے اک گناہِ دائمی کے درمیاں
کٹ رہی ہے مستقل خاموش ڈر میں زندگی
اک تغیر کے عمل میں ہے جہاں بحر و بر
کچھ نئی سی ہو رہی ہے بحر و بر میں زندگی
یہ بھی کسی زندگی ہے اپنے لوگوں میں منیر
باہمی شفقت سے خالی ایک گھر میں زندگی
٭٭٭
چار دن اس حسن مطلق کی رفاقت میں کٹے
اور اس کے بعد سب دن اس کی حسرت میں کٹے
اس جگہ رہنا ہی کیوں* ان شہروں کے درمیاں
وقت سارا جس جگہ بے جا مروت میں کٹے
اک قیام دلربا رستے میں ہم کو چاہیے
چاہے پھر باقی سفر راہِ مصیبت میں کٹے
چاند پیڑوں سے پرے ہو رک گئی ہوں بارشیں
کاش وہ لمحہ کبھی اُس بت کی صحبت میں کٹے
اک مثالِ بے مثال اب تک ہیں اپنے درمیاں
جن کے بازو جسم و دل حق کی شہادت میں لٹے
کاٹنا مشکل بہت تھا ہجر کی شب کی شب کو منیر
جیسے ساری زندگی غم کی حفاظت میں کٹے
٭٭٭
There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)
Bookmarks