مجرم کا کیسمصنف:- شاہد بھائی
آخری قسط
شہباز احمد کی نگاہیں سب انسپکٹر تنویرکی طرف اُٹھ گئیں ۔ وہ فوراً عدالت کے کمرے سے باہر نکل گیا لیکن پھر اگلے ہی لمحے وہ واپس آگیا۔اس بار سب انسپکٹر تنویر تنہا نہیں تھا بلکہ اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی موجود تھا۔ اس شخص کی طرف دیکھ کر عدالت میں موجود ہر شخص کے منہ سے نکلا:۔
اوہ !۔۔۔ تو یہ اصل مجرم ہے ‘‘ ۔ اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی عرفان بردارزفوراً پہچان گئے کہ یہ عظیم شفقت ہے ۔ وہی عظیم شفقت جو سراج معین صاحب کا پڑوسی تھا اور جس کے گھر تفتیش کرنے کے لئے عرفان بردارز گئے تھے اور پھر اس نے چوری کی رپورٹ کے سلسلے میں انہیں تھانے کی طرف بھیج دیا تھا۔ اسے یقین تھاکہ تھانے کا انسپکٹر بشیر رضا بہت گھمنڈی آدمی ہے اور انہیں تفتیش میں کوئی مدد فراہم نہیں کرے گا اور نہ ہی انہیں فیکٹری کے پتا بتائے گا لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ عرفان بردارز سب انسپکٹر تنویر سے فون کروا کر بشیر رضا کو مجبور کر دیں گے کہ وہ انہیں فیکٹری کا پتا بتادے جہاں سراج معین صاحب کی گاڑی چوری کے بعد لے جائے گئی تھی۔اس وقت عظیم شفقت کی آنکھوں میں گہرے مایوسی کے بادل تھے اور اس کا چہرہ سرد پڑ گیا تھا۔
اب آپ عدالت کو مکمل کہانی سنائیں گے یا میں سناؤں ‘‘ ایل ایل بی شہباز احمد مسکرا کر بولے۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ اب میں سب کے سامنے آہی گیا ہوں تو عدالت کو کہانی سنانے میں کوئی حرج نہیں ۔۔۔ یہ کہانی ہے ایم اے جیسوال کے سیاہ کارنا مے کی ۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔ آ ج سے دو سال پہلے میرا بھائی رحیم شفقت ایک بینک میں ڈاکا ڈالنے کے دوران پکڑا گیا۔۔۔ ا ن دونوں ہمارے گھر کے حالات بہت تنگ تھے ۔۔۔ میرا انجینئرنگ کا شعبہ بھی مجھے نفع نہیں دے رہا تھا بلکہ غربت نے ہمیں فاقہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔ اس صورتحال سے تنگ آکر میرے بھائی نے ایک بینک میں ڈاکا ڈالنے کا پروگرام بنایا ۔۔۔ لیکن بدقسمتی سے اس وقت بینک کا سیکورٹی گارڈ اسے چکما دے کر پولیس کو فون کرنے میں کامیاب ہوگیا۔۔۔ میرا بھائی گرفتار کر لیا گیا ۔۔۔ اس ڈاکے کے دوران اس سے بینک سٹاف میں سے کسی شخص کا قتل بھی ہوگیا تھا ۔۔۔لہٰذا اس پر ایک ساتھ دو مقدمے دائر ہوئے ۔۔۔ ایک بینک لوٹنے کی کوشش کا مقدمہ ۔۔۔ اور دوسرا ایک شخص کا خون کرنے کا مقدمہ ۔۔۔ایم اے جیسوال عدالت میں اس کے مخالف وکیل کا کام سرانجام دے رہا تھا۔۔۔ میرے بھائی پر جرم ثابت کرنے میں اس نے صرف پانچ منٹ لگائے ۔۔۔ اور جج صاحب سے درخواست کرکے میرے بھائی کوپھانسی کی سزا دلوا دی ۔۔۔ میرے بھائی کو پھانسی ہونے کی دیر تھی کہ میرے والدجو بہت بوڑھے تھے اس صدمے کو برداشت نہ کر سکے اور ایک ماہ بعد ہی دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے دنیا کو خیر آباد کہہ گئے ۔۔۔ اپنے شوہر اور اپنے جوان بیٹے کی موت کے بعد میری ماں بھی بھلا کب تک زندہ رہتی ۔۔۔ ایک دن اس کے کمر ے سے نیند کی گولیوں کی خالی ڈبیا ملی اور ساتھ میں اس کی میت بھی ۔۔۔میری ماں اپنے شوہر اور اپنے بیٹے کے پاس پہنچ چکی تھی۔۔۔ میں اس دنیا میں تنہا رہ گیا۔۔۔ اوراس سب کا ذمہ دار تھا یہ ایم اے جیسوال ۔۔۔ اسی نے میرا سارا خاندان مٹا کر رکھ دیا تھا ۔۔۔ اب بدلہ لینے کی باری میری تھی۔۔۔میں نے کافی عرصہ منصوبہ بنانے میں صرف کیا۔۔۔ اور آخر میں نے مکمل منصوبے کا جائزہ لے کر میدان عمل میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا۔۔۔میں اور ایل ایل بی شہباز چونکہ ایک ہی جگہ پڑھے تھے اور اپنے الگ الگ شعبے کی طرف گامزن ہوگئے تھے ۔۔۔ اس وجہ سے میری شہباز احمد کے ساتھ دوستی تھی ۔۔۔ اور مجھے یہ بھی معلوم تھا کہ شہباز احمد اور جیسوال کی ہمیشہ سے لڑائی رہی ہے ۔۔۔ عدالت میں ایک دوسر ے کو شکست دینا ا ن دونوں کا شوق ہے ۔۔۔ شہباز احمد کی وجہ سے میں منظور کو بھی جانتا تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے تعلقات بھی جیسوال سے کچھ اچھے نہیں تھے ۔۔۔ جیسوال کی دشمنی منظور کے ساتھ بھی تھی کیونکہ وہ شہباز احمد کا اسسٹنٹ تھا۔۔۔ بس میں نے یہ سب کچھ سوچ کر منظور کواپنے ساتھ ملانے کا فیصلہ کیا۔۔۔ میں نے اسے بھاری رقم کی پیش کش کی۔۔۔ آخر دو دن سوچنے کے بعد اس نے میرا ساتھ دینے کی ہامی بھر لی۔۔۔لیکن اس سب کے باوجود میں جانتا تھا کہ منظور پھنس جائے گا اور میں چاہتا بھی یہی تھاکہ وہ پھنس جائے تاکہ شہباز احمد اس کا کیس لڑیں اور اسے بچاتے ہوئے شک کی انگلی جیسوال کی طرف جائے کیونکہ مجھے یہ بھی خبرتھی کہ جیسوال کے اپنے بھائی آکاش کے ساتھ تعلقات بہت خراب ہیں ۔۔۔ اور اس کے قتل پر سب سے پہلے شک کی انگلی جیسوال کی طرف ہی جائے گی۔۔۔ میں چاہتا تھا کہ جیسوال کا سارا گھرانہ بھی ختم ہوجائے اور وہ خود بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہو۔۔۔ تب میرے بدلے کی آگ ٹھنڈی ہو سکتی تھی۔۔۔لیکن مجھے یہ بات بھی اچھی طرح معلوم تھی کہ شہباز احمد کسی کا بھی کیس پورے اطمینان کے بعد ہی ہاتھ میں لیتے ہیں اور اگر کیس کے دوران انہیں یہ ہلکا سا بھی شک ہو جائے کہ ان کا مؤکل ہی مجرم ہے تو وہ فوراً کیس چھوڑ دیتے ہیں ۔۔۔ اور ان کا بیٹا عمران آنکھوں کے ذریعے چہرہ پڑھ لینے کا ماہر ہے ۔۔۔ منظور کا جرم ان سے چھپ نہیں سکے گا ۔۔۔ یہ سب سوچ کر مجھے اپنے منصوبے میں شہباز احمد کی بیٹی سادیہ کے اغوا کو بھی شامل کرنا پڑاتاکہ وہ اپنی بیٹی کی زندگی کے لئے منظور کا کیس لڑیں اور جیسوال کو کیس میں پھنسا کر منظور کو رہا کرا لیں۔۔۔اس کے لئے میں نے سراج معین صاحب کے سیکورٹی گارڈ کو پیسے کی لالچ دے کر ایک رات بیماری کا بہانہ بنا کر چھٹی کرنے پر راضی کیا۔۔۔ پھر اس رات اپنے کرایے کے ایک آدمی کے ذریعے سراج معین صاحب کی گاڑی چوری کروالی۔۔۔علاقے کے ایم این اے سے میرے تعلقات کافی دوستانہ تھے ۔۔۔ میں نے اس سے کچھ دن کے لئے اس کی فیکٹری کرایے پر لے لی۔۔۔ اور سراج صاحب کی گاڑی فیکٹری کے اندر کھڑی کر دی۔۔۔ فیکٹری ویسے بھی بند پڑی ہوئی تھی اس لئے ایم این اے سلطان فوراً راضی ہوگیا۔۔۔اس کے بدلے میں ، میں نے اس کی جیب گرم کردی ۔۔۔پھر میں نے جیسوال کے والد پورب کمارکو فون کیا اور فون میں اسے بتایا کہ تمہارے بیٹے جیسوال کی جان خطرے میں ہے اور تمہارے دوسرے بیٹے یعنی آکاش کی سالگرہ کے دن جیسوال زندگی کی بازی ہار دے گاتو یہ سن کر وہ بہت فکر مند ہوگئے ۔۔۔ یہ بھی پروگرام کا حصہ تھا۔۔۔اس کی وجہ یہ تھی کہ جیسوال عین دھماکے سے کچھ منٹ پہلے گھر سے باہر نکل آئے اور خود دھماکے سے بچ جائے اور پھر سلاخوں کے پیچھے پہنچ جائے ۔۔۔ میں چاہتاتھا کہ جس طرح میں نے اپنے والدین اور اپنے بھائی کی موت کا دکھ برداشت کیا ہے اسے بھی یہ دکھ برداشت کرنا پڑے ساتھ میں اس کی ساری عزت و شہرت بھی خاک میں مل جائے اور وہ زندگی کے باقی دن جیل میں رہ کر گزرے۔۔۔اس سب کے بعد اب منصوبے پر عمل کرنے کا اصل وقت آگیا تھا۔۔۔ سارا انتظامات مکمل ہو گئے تھے ۔۔۔مجھے خبر مل گئی تھی کہ جیسوال کے والد نے سالگرہ کا پروگرام ملتوی کرنے کی بات کی ہے لیکن جیسوال کہ چونکے پہلے ہی اپنے بھائی سے تعلقات خراب تھے اس لئے وہ یہ پروگرام کسی صورت بھی ملتوی کرنے کو تیار نہیں ہوا اور یہی میں چاہتا تھا۔۔۔ آخر سالگرہ والے دن دوپہر کو میرے آدمیوں نے سادیہ کو اغوا کر لیا۔۔۔ وہ اس وقت کسی کام سے اپنی سہیلی کے گھر جارہی تھی جب میرے آدمیوں نے اسے سراج صاحب کی گاڑی میں بیٹھایا اور اسے فیکٹری کی طرف لے آئے ۔۔۔ یہاں فیکٹری میں ،میں پہلے سے ہی اس کا استقبال کرنے کے لئے موجودتھا ۔۔۔دوسری طرف میں نے منظور کو جیسوال کے گھر کے پاس بم کے ساتھ بھیج دیا تھا۔۔۔ یہ بم بارود سے لیس تھا اور ایک ہی جھٹکے میں پورے گھر کو ملبے کا ڈھیر بنا سکتا تھا اور جیسوال کے پورے خاندان کو چٹکیوں میں ختم کر سکتا تھا۔۔۔ منظور پر نظر رکھنے کے لئے اور حالات کی پل پل کی رپورٹ لینے کے لئے میں نے جیسوال کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر اپنے کچھ آدمی بھی مقرر کر دئیے تھے جو مجھے وہاں سے پل پل کی رپورٹ دے رہے تھے ۔۔۔ساتھ میں میں نے انہیں یہ بھی ہدایت کر دی تھی کہ گھر کے باہر کچھ مشکوک حرکات ضرور کرتے رہنا کہ جس سے جیسوال کے والد پورب کمار کو یقین ہو جائے کہ آج جیسوال زندہ نہیں بچے گا اور وہ اسے بچانے کے لئے بہانہ بنا کر گھر سے باہر بھیج دیں ۔۔۔اورپھرجیسے ہی مجھے یہ خبر ملی کہ جیسوال کے والد نے بہانہ بنا کر اسے گھر سے باہر بھیج دیا ہے اور پھر اس کے گھر دھماکا ہو چکا ہے اور جیسوال خود دھماکے سے چند منٹ پہلے گھر سے باہر نکل آیا ہے اور اس نے منظور کو بھی گھر سے بھاگتے ہوئے دیکھ لیا ہے تو میں نے اپنے آدمیوں کے ذریعے شہباز احمد کو دفتر سے اغوا کروا لیا۔۔۔اغوا کرنے کے بعد انہیں فیکٹری میں پہنچا دیا گیا۔۔۔ موقع واردات سے مجھے خبر مل گئی کہ منظور کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے ۔۔۔ویسے بھی اگر اسے گرفتار نہ بھی کیا جاتا توبھی جیسوال اسے رنگے ہاتھوں دیکھ ہی چکا تھا اور یہ سب کچھ میرے منصوبے میں شامل بھی تھا۔۔۔ جیسوال کے والد کو فون کرنے کی ایک فائدہ یہ بھی ہوا تھاکہ انہیں نے جیسوال کو گھر سے باہر بھیجا اور اس نے منظور کو بم لگانے کے بعد بھاگتے ہوئے دیکھ لیا۔۔۔ اب منظور کا گرفتار ہونا لازمی تھا کیونکہ اس کی گرفتاری کے بعد ہی شہباز احمد اس کا کیس لڑتے اور پھر جیسوال کی طرف شک کی انگلی جاتی اور اسے عمر قید کی سزا ہوتی ۔۔۔ اس طر ح میرا بدلہ پورا ہوتا۔۔۔تو بہرحال فیکٹری میں میری شہباز احمد سے بات چیت ہوئی ۔۔۔ میں نے انہیں سادیہ کی موت کی دھمکی دی اور ان کے سامنے سادیہ کو رسی کے سہارے الٹا لٹکا ہوا دکھایا ۔۔۔ شہباز احمد کانپ گئے اور بالآخر یہ کیس لڑنے پر مجبوراً تیار ہوگئے۔۔۔میں نے انہیں اپنے آدمیوں کے ذریعے وہاں بے ہوش کر کے ایک بار پھر انہیں ان کے دفتر میں پہنچا دیا ۔۔۔ اس کے بعد کے سارے حالات تو آپ سب جانتے ہی ہیں ‘‘ یہاں تک کہہ کر عظیم شفقت خاموش ہوگیا۔
دفاعی وکیل سرخرو ہوتا ہے ‘‘ ایل ایل بی شہباز احمدتھوڑا سا جھک کر بولے۔ پھر جج صاحب نے اپنے قلم سے فیصلہ لکھ دیا اور پھر قلم توڑ دی گئی۔
یہ عدالت تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور عظیم شفقت کے اقبال جرم کے بعد عظیم شفقت کو جیسوال صاحب کے بھائی آکاش ان کے والد پورب کمار ان کی والدہ انایا کمار اور مشہور وکیل جن میں توفیق راشد، عمران اسماعیل اور کامران عرفان شامل ہیں،ان کے قتل میں گناہ گار پاتی ہے ۔۔۔اور اسے ان سارے لوگوں کے قتل میں ملوث دیکھ کر پھانسی کی سزا سناتی ہے ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ شہباز احمد کوعدالت کو گمراہ کرنے میں قصور وار سمجھتی ہے اگرچہ انہیں نے اپنی بیٹی کی زندگی کی خاطر یہ قدم اٹھایا اور بعد میں جیسوال صاحب کو بے گناہ ثابت کرکے اپنی غلطی کا ازالہ بھی کر دیا لیکن قانون کے مطابق عدالت کو گمراہ کرنابہت بڑا جرم ہے اور اس جرم کی بڑی سزا ملتی ہے لیکن شہباز احمد کی مجبوریوں کو مدنظر رکھ کر یہ عدالت انہیں صرف ایک ماہ تک وکالت کرنے پر پابند ی عائد کرتی ہے ۔۔۔ کیس کی فائل بند ہوتی ہے ‘‘ جج صاحب شکیل الرحمان نے ہتھوڑا لکڑی کی پلیٹ پر مارا اور اٹھ کھڑے ہوئے ۔ دوسری طرف عظیم شفقت کی آنکھوں میں ندامت بالکل نہیں تھی۔ اسے تو یقین تھا کہ وہ پھانسی کے بعد اپنے خاندان سے جاملے گا لیکن اس کی آنکھوں میں مایوسی بھی نظر آرہی تھی کہ وہ اپنا بدلہ پورا نہیں کر پایا تھا۔جیسوال کٹہرے سے مسکراتے ہوئے باہر نکلا اور بے اختیار شہباز احمد کو گلے لگا لیا۔شہباز احمد بھی مسکرا دئیے ۔
کیاہوا جیسوال صاحب ۔۔۔ ہر بار کیس کے آخر میں تو آپ مجھے گھورتے ہوئے عدالت سے باہر نکل جاتے ہیں ۔۔۔ آج مجھے گلے لگارہے ہیں ‘‘ شہباز احمد چہک کر بولے۔
ہر بارآپ سچائی کو ہی فتح دلا کر کیس کو ختم کرتے ہیں ۔۔۔ اور اس بار بھی آپ نے سچائی کو ہی جیتایا ۔۔۔میں شرمندہ ہوں کہ میں نے پچھلی سنوائی کے آخر میں آپ کو کچھ تلخ جملے بو ل دئیے تھے ۔۔۔ آپ تو ہر بار کی طرح اس بار بھی اس دنیاکی عدالت میں بھی سرخروہوئے ہیں اور اپنے ضمیر کی عدالت میں بھی سرخرو ہوئے ہیں ۔۔۔ اور مجھے یقین ہے کہ اگلی زندگی میں آپ اوپر والے کی عدالت میں بھی سرخرو ہونگے‘‘جیسوال نے خوشی سے لبریز اندا ز میں کہا۔
انشااللہ ‘‘ شہباز احمد کے منہ سے نکلا۔پھر جیسوال شہباز احمد سے ہاتھ ملاتا ہوا عدالت سے باہر نکل گیا۔ اب شہباز احمد کی نظریں اپنے بچوں کی طر ف گئیں۔ان سب کے چہروں پر زمانے بھر کی خوشی تھی۔ اسی خوشی کو ساتھ لئے وہ اپنے گھر پہنچے ۔ شہزاد بھی ان کے ساتھ ہی تھا۔ یہاں بیگم شہباز نے طرح طرح کے لوازمات تیار کر رکھے تھے ۔ وہ بھی ٹی وی نیوز چینل پر یہ ساری کاروائی سن چکی تھیں اور خوشی کا ایک سمندر ان کے چہرے پر تھا۔ اِسی عالم میں پکوڑے کھاتے ہوئے سلطان کے ذہن میں سوال اُبھرا۔
اباجان ۔۔۔ اب آپ کو ایک ماہ کی چھٹی مل چکی ہے تو شہزاد صاحب ایک ماہ تک کیا کریں گے ۔۔۔ انہیں تو مفت میں ایک ماہ کی تنخواہ مل جائے گی ‘‘ سلطان نے شہزاد کی طرف دیکھ کر چوٹ کی۔
تم نے وہ شعر تو سنا ہی ہوگا۔۔۔ جو کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں ۔۔۔ شہزاد صاحب کی بھی وہی مثال ہے ‘‘ عمران مسکرایا۔
آپ کے بچے بہت شریر ہیں ۔۔۔اگر آپ کہتے ہیں تو میں اس ماہ کی تنخواہ نہیں لوں گا۔۔۔ اور میں توویسے بھی مفت میں اپنی خدمات پیش کرنا چاہتا تھا۔۔۔ آپ کے ساتھ کام کرنے سے زیادہ خوش قسمتی میرے لئے کیا ہوسکتی ہے ‘‘ شہزاد نے شکایت بھرے لہجے میں کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ اگر ایسی بات ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔ آپ مفت میں ہمارے لئے کام کر سکتے ہیں ‘‘ سلطان نے شرارت بھرے لہجے میں کہا جس پر ان سب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی البتہ شہزاد اکامنہ اور بن گیا۔
سلطان کی با ت کا برانہ مانئے گا شہزاد صاحب ۔۔۔ یہ تھوڑا شوخ مزاج واقعے ہوا ہے ‘‘ شہباز احمد مسکراکر بولے۔
اباجان ۔۔۔ تھوڑا تو نہ کہیں ۔۔۔ میں نے بہت زیادہ شوخ مزاج ہوں ‘‘ سلطا ن نے ناراضگی سے کہا۔
لگتا ہے ۔۔۔ آج سب نے ناراض ہونے کی ہی ٹھان رکھی ہے ۔۔۔ پھر تو یہ پکوڑے پلیٹ میں ہی بھلے ‘‘ یہ کہتے ہوئے شہباز احمد گھبرا کر اُٹھ کھڑے ہوئے جس پر وہاں ایک قہقہہ گونج اُٹھا۔اور پھر وہ سب یہ ایک ماہ کس طرح گزاریں گے ؟ اس بات پر غور کرنے لگے۔
٭٭٭٭٭
ختم شدہ
٭٭٭٭٭



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out

Reply With Quote
Bookmarks