مجرم کا کیس
مصنف:- شاہد بھائی
قسط نمبر-9

عرفان برادرز ٹیکسی میں بیٹھے سراج معین صاحب کے گھر کی طرف اُڑے جارہے تھے۔ اب انہیں تفتیش کا آگلا مرحلہ وہاں پہنچ کر ہی طے کرنا تھا۔ راستے بھر وہ کافی خاموش خاموش رہے۔ سراج معین صاحب کے بنگلے کے پاس پہنچ کر وہ ٹیکسی سے نیچے اتر آئے۔ کرایہ ادا کیا اور بنگلے کے دروازے کے قریب آئے ۔ دوسرے ہی لمحے وہ چونک اُٹھے۔اور پھر ان کے چہروں پر مایوسی کے بادل نظر آنے لگے۔ بنگلے پر ایک بڑا سا تالا ان کا منہ چڑا رہا تھا۔
شاید آج ناکامی ہی نصیب میں لکھی ہے ۔۔۔ آخر بنگلے کے دروازے پر تالا لگا کر جانے کی کیا ضرورت تھی‘‘سلطان جھلا کر بولا۔
تو کیا گھر چوروں کے لئے کھلا چھوڑ کر جاتے‘‘ عمرا ن نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا۔
تم لوگوں کو وقت ضائع کرنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔۔۔ شاید ہماری ناکامی کی وجہ یہی ہے ‘‘عرفان جل بھن کر بولا۔
تو بھائی سنجیدہ رہ کر آپ نے کون سا تیر مار لیا۔۔۔ ہم مذاق کر تے ہوئے ناکام ہوئے اور آپ سنجیدہ رہ کر ناکام ہوئے۔۔۔ ناکامی تو دونوں کے ہی نصیب میں آئی‘‘سلطان مسکرا کر بولا۔عرفان نے اسے بری طرح گھور کردیکھااور بنا کچھ بولے بنگلے کے دروازے سے دور ہٹنے لگا۔ یہاں تک کہ دوبارہ مرکزی سڑک پر پہنچ گیا۔ اس نے آس پاس اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔ بنگلے کے بالکل ساتھ ہی ایک اور بڑا سا بنگلہ نظر آیا جس پر عظیم شفقت نام کی تختی لگی ہوئی تھی۔ عرفا ن کو دیکھ کر باقی سب بھی اس کے ساتھ ہو لیے ۔ دوسرے ہی لمحے وہ سب عظیم شفقت نامی شخص کے بنگلے کے دروازے پر کھڑے تھے۔ عرفا ن نے اب مزید وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور دروازے کے ساتھ لگی گھنٹی کا بٹن دبا دیا اور پھر مسلسل لگاتاربٹن دباتا ہی چلا گیا۔ آخر اندر سے ایک نوکر جھنجھلائے ہوئے انداز میں باہر نکلا۔
جناب ۔۔۔گھٹی کا بٹن دبانے کے بعد کچھ د یر انتظار کیا جاتا ہے ‘‘ نوکر نے جھلا کر کہا۔
معلومات کافی مفید ہے ۔۔۔ آئندہ اس پر عمل کیا جائے گا ‘‘ سلطان نے فوراً کہا۔
ہمیں عظیم شفقت صاحب سے ملنا ہے ۔۔۔ کیا وہ گھر پر ہی ہیں ‘‘ عرفا ن نے سوا ل کیا۔
جی ہاں ۔۔۔ لیکن بھلا آپ کو ان سے کیا کام ۔۔۔ آپ لوگ نوعمر ہیں اس لئے کسی فاونڈیشن کے لئے چند اکٹھا کر رہے ہوں گے۔۔۔کیا آپ صاحب کے پاس چندہ اکٹھا کرنے کے لئے آئے ہیں ‘‘ نوکر نے ان کی طرف دیکھ کر اندازہ لگایا۔
یہ بات نہیں ۔۔۔ ہمیں ان سے کچھ معلومات لینی ہے ۔۔۔ اگر آپ اندر پیغام پہنچا دیں تو ہماری کافی مدد ہو جائے گی‘‘ عرفان نے درخواست کرتے ہوئے کہا جس پر نوکر سر ہلاتا ہوا اندر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد انہیں ڈرائنگ روم میں لے جا کر بٹھا دیا گیا اور وہ عظیم شفقت کا انتظا ر کرنے لگے۔ ڈرائنگ روم سے ہی صاف پتا لگ رہا تھا کہ وہ کسی بہت ہی امیر شخص کے گھر میں بیٹھیں ہیں۔ ڈرائنگ روم میں مختلف تصاویر ، قیمتی اور اعلیٰ قسم کے ریشم کے پردے اور ساتھ میں مکمل طور پر ٹھنڈک کے لئے آئیر کنڈیشن بھی چالو تھا۔ سامنے ایک بڑی سی ایل ای ڈی لگی ہوئی تھی جو ٹی وی کا کام سرانجام دی رہی تھی۔اس کے علاوہ صوفے بھی ململ کے کپڑے کے تیار کئے ہوئے تھے اور کافی مہنگے دکھائی دے رہے تھے ۔ ابھی وہ ان سب چیزوں کو دیکھ ہی رہے تھے کہ ایک کھنکارتی ہوئی آواز نے انہیں چونکنے پر مجبور کر دیا۔
بچوں ۔۔۔ آپ کو مجھ سے کیا کام ‘‘ ۔ انہو ں نے نظریں اٹھائیں ۔ ایک شاہانہ لباس میں کافی ادھیڑ عمر شخص انہیں بری طر ح گھور رہا تھا۔ اس کی آنکھیں میں سختی کے آثار نمایا نظر آرہے تھے اور پھر وہ ان کے پاس آکر صوفے پر بیٹھ گیا اور انہیں ایسے دیکھنے لگا جیسے ابھی کھا ہی تو جائے گا۔
ہمیں آپ سے آپ کے پڑوس میں قیام پذیر سراج معین صاحب کے بارے میں کچھ پوچھ گچھ کرنی ہے۔۔۔ اگر آپ کے پاس وقت ہو تو! ۔۔۔‘‘عرفا ن نے جملہ ادھورا چھوڑ دیااور اس کے چہرے کے تاثرات کا جائزہ لینے لگا لیکن وہاں اب بھی سختی صاف نظر آرہی تھی لیکن ساتھ ہی حیرت کے بادل بھی اُمڈ آئے تھے۔
میرے پاس وقت نہیں ہے ۔۔۔ تم لوگ ان کے بارے میں کیوں تفتیش کرتے پھر رہے ہو ۔۔۔ پہلے تو اس سوال کا جواب دو۔۔۔ کہیں تم لوگ کسی مجرم گروہ سے تعلق تو نہیں رکھتے ‘‘ عظیم شفقت نے سرد آواز میں کہا۔
ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔ آپ ہمارے کارڈ دیکھ سکتے ہیں ۔۔۔ ہم عرفان بردارز کے نام سے جانے جاتے ہیں ‘‘ یہ کہتے ہوئے عرفا ن نے عدنان کو اشارہ کیا ۔اس نے اپنی جیب سے کارڈ نکال کر عظیم شفقت کو دکھایا ۔ دوسرے ہی لمحے ان کے چہرے کی سختی غائب ہوگئی۔ اب ان کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلنے لگی۔
اوہ !۔۔۔ تو آپ لوگ مشہور وکیل ایل ایل بی شہباز احمد کے بیٹے ہیں ۔۔۔ پوچھئے ۔۔۔ کیا پوچھنا چاہتے ہیں ‘‘ عظیم شفقت نے چہک کر پوچھا۔
آپ ہمارے والد کو جانتے ہیں ‘‘ ان سب کے منہ سے ایک ساتھ نکلا۔
بھئی آپ کے والد اور میں نے ایک ہی کالج میں پڑھائی کی ہے ۔۔۔ انہیں نے وکالت کا شعبہ چنا اور میں نے انجینئر نگ کا ۔۔۔ وہ میرے کافی اچھے دوست ہیں ۔۔۔ بہر حال آپ سراج معین کے بارے میں کچھ کہہ رہے تھے ‘‘ عظیم شفقت نے دوبارہ اصل بات پر آتے ہوئے کہا۔
جی ہاں ۔۔۔ آپ کو کچھ پتا ہے کہ سراج صاحب کہاں گئے ہیں ۔۔۔ کیونکہ ان کے بنگلے کے دروازے پر تالا لگا ہوا ہے ‘‘ عرفان نے جلدی جلدی کہا۔
ہاں ۔۔۔ وہ ابھی تین دن پہلے چھٹیاں منانے شہرسے باہر اپنے ریسٹ ہاؤس میں گئے ہیں ۔۔۔و ہ ہر سال ان دنوں گرمی کی وجہ سے وہاں وقت گزارتے ہیں ‘‘ عظیم شفقت نے بتایا۔
اور ان کی گاڑی ۔۔۔ کیا وہ بھی ان کے ساتھ ہی تھی ‘‘ اس مرتبہ عدنان نے سوال کیا۔
جی نہیں ۔۔۔ ان کی گاڑی تو ابھی کچھ دن پہلے ہی چوری ہوگئی۔۔۔ انہیں نے پولیس میں رپورٹ بھی کروائی۔۔۔ پولیس نے دو چار دن تفتیش کی ۔۔۔آخر انہوں نے بھی ناکام ہوکر ہمت ہار دی ۔۔۔پھر سراج صاحب نے ایک نئی گاڑی خرید لی تھی ‘‘ عظیم شفقت نے وضاحت کی۔
کون سے تھانے میں رپورٹ درج کرائی تھی ۔۔۔ اس بارے میں کچھ علم ہے آپ کو ‘‘ عمران نے بھی تفتیش میں حصہ لیا۔
جی ہاں ۔۔۔ یہاں اس علاقے میں تو ایک ہی تھانہ ہے ۔۔۔ تحصیل روڈ صدر تھانہ ۔۔۔ وہاں پر ہی رپورٹ درج کرائی ہوگی‘‘ عظیم شفقت نے سوچ کر کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ آپ نے ہماری کافی مدد کی ۔۔۔اب ہم چلیں گے ۔۔۔ ایک بار پھر ۔۔۔ بہت بہت شکریہ‘‘ یہ کہتے ہوئے عرفان بردارز اٹھ کھڑے ہوئے ۔ عظیم شفقت نے گرم جوشی سے ان سب سے ہاتھ ملایا۔آخر وہ سب ڈرائنگ روم سے باہر نکلتے ہوئے بنگلے سے باہر نکل آئے ۔ انہوں نے کافی فاصلے سے ہی ایک ٹیکسی کو اشارے سے روک دیااور پھر قریب پہنچ کر ٹیکسی میں سوا رہوگئے ۔ دوسرے ہی لمحے انہوں نے ٹیکسی ڈرائیور کو تحصیل روڈ صدر تھانہ کے پتا بتایا اور پھر ان کے ٹیکسی پوری رفتار سے روانہ ہوگئی۔اب وہ لمحہ بہ لمحہ تفتیش میں آگے بڑھتے ہوئے سادیہ کے قریب ہوتے جارہے تھے۔صد ر تھانہ پہنچ کر انہوں نے ٹیکسی ڈرائیور کو کرایہ ادا کیا اور تھانے میں داخل ہوگئے۔یہاں ایک بڑی بڑی مونچھوں والا سب انسپکٹر ٹانگیں پھیلائے سموسے کی پلیٹ آگے رکھے سموسوں کا لطف اٹھار ہا تھا۔ساتھ ہی گرم گرم بھانپ چھوڑتی چائے رکھی ہوئی تھی۔ ہر سموسے کے بعد وہ چائے کے ایک گھونٹ بھرتا اور اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتا تھا۔اس کی وردی پر سب انسپکٹربشیر رضا لکھا ہوا تھا۔ عرفان بردارز کو دیکھ اس کا منہ بن گیا۔
اب بچے بھی تھانے میں آیا کریں گے‘‘ سب انسپکٹر بشیر نے برا سا منہ بنایا۔
جی ہاں ۔۔۔ جب پولیس کام چوری کرے گی تو بچوں کو ہی تفتیش کرنا پڑے گی‘‘ سلطان نے ترکی بہ ترکی فورا ً جواب دیا۔
کام چوری ۔۔۔ کیا مطلب !۔۔۔ لڑکے ۔۔۔ تمہارا دماغ توٹھیک ہے ‘‘ سب انسپکٹر بشیر دھاڑا۔
نہیں !۔۔۔ یہ دماغ سے پید ل ہے ‘‘ عمران نے مسکرا کر کہا۔
اور یہ دماغ کی گاڑی پر سوار ہے ‘‘ سلطان نے مذاق اُڑانے والے انداز میں عمرا ن کی طرف اشارہ کیا۔
تم لوگ میرا وقت ضائع کرنے آئے ہو ‘‘ سب انسپکٹر نے بھنا کر کہا۔
تو کیا ہمارے آنے سے پہلے کوئی بہت اہم کام ہو رہا تھا‘‘سلطان نے سموسے کی پلیٹ کی طرف اشارہ کرکے طنز مارا۔
لگتا ہے تم لوگوں کو حوالات کی سیر کرانی پڑے گی‘‘ سب انسپکٹر غرایا۔
آپ انہیں چھوڑئیے انسپکٹر صاحب۔۔۔ انہیں وقت ضائع کرنی کی عادت ہے ۔۔۔ آپ ہمارا کارڈ دیکھ لیجئے ۔۔۔ ہم عرفان برادرز کے نام سے مشہور ہیں ۔۔۔اور اس وقت ایک گاڑی کی چوری کی رپورٹ کے بارے میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں ۔۔۔ امید ہے آپ ہماری مدد کریں گے ‘‘عرفان نے بات سنبھالتے ہوئے کارڈ اسے دکھایا۔ کارڈ دیکھ کر سب انسپکٹر بشیر کا منہ اور بن گیا۔
تم لوگ پرائیوٹ جاسوس ہو گے تو اپنے گھر کے ہوگے ۔۔۔ یہاں میں تمہاری کوئی مدد نہیں کروں گا‘‘ سب انسپکٹر نے صاف لہجے میں کہا۔
دیکھو ۔۔۔تم لوگوں کی وجہ سے کام خراب ہوگیا نہ ۔۔۔ تمہیں کتنی مرتبہ سمجھایا ہے کام کے وقت بے تکی نہ ہانکا کرو۔۔۔ لیکن تم سب باز نہیں آتے ۔۔۔خاص طور پر سلطان تم تو حد کر دیتے ہو ‘‘ عرفان نے انہیں ڈانٹا۔
ہمیں معاف کردیجئے بڑے بھائی‘‘ سلطان نے رونی صورت بنا کر کہا جس پر وہ سب کوشش کرنے کے باوجود مسکرا ہٹ نہ روک پائے۔
تم لوگ کچھ بھی کر لو میں تمہاری کوئی مدد نہیں کروں گا‘‘ سب انسپکٹر نے سفاک لہجے میں کہا۔ان سب نے بے بسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ تبھی عرفان چونک اُٹھا۔اس نے فوراً جیب سے موبائل فون نکالا اور کسی کے نمبر ڈائل کئے ۔ سب انسپکٹر سمیت وہ سب عرفان کو حیران ہو کر دیکھنے لگے۔ تبھی سلسلہ مل گیا۔
اسلام علیکم انکل۔۔۔ کیسے ہیں آپ ۔۔۔ جی میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔۔ آپ سے کچھ ضرور ی کام تھا ۔۔۔ ہم کیس کے سلسلے میں سب انسپکٹر بشیر رضا کے پاس تحصیل روڈ صدر تھانے میں ہیں ۔۔۔ وہ ہماری مدد کرنے سے صاف انکار کررہے ہیں ۔۔۔ اگر آپ کہیں گے تو شاید وہ ما ن جائیں ۔۔۔ یہ لیجئے۔۔۔ ان سے بات کریں ‘‘ یہ کہتے ہوئے عرفان نے موبائل سب انسپکٹر بشیر کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اس نے حیران ہو کر موبائل فون کو دیکھا اور پھر فون کان سے لگایا۔ دوسری طرف سب انسپکٹر تنویر کی آواز سنائی دی۔
بشیر صاحب ۔۔۔ یہ بچے گھر کے ہی ہیں ۔۔۔ میں ان کے والد کو اور انہیں اچھی طرح جانتا ہوں ۔۔۔ یہ لوگ سچائی کے ساتھ دیتے ہیں ۔۔۔ اگر آپ سے کچھ پوچھ رہے ہیں تو انہیں صحیح معلومات فراہم کردیں‘‘ سب انسپکٹر تنویر کی نرم گرم آواز سنائی دی۔
ٹھیک ہے تنویر صاحب ۔۔۔ اگر آپ کہہ رہے ہیں تو میں مان جاتا ہوں‘‘ سب انسپکٹر نے ہار مانتے ہوئے کہا اور موبائل فون عرفان کو واپس دے دیا۔ عرفان نے شکریہ ادا کرتے ہوئے فون رکھ دیا۔ اب وہ سب ایک بار پھر سب انسپکٹر بشیر کی طرف مڑے ۔ تبھی اچانک وہ سب دھک سے رہ گئے۔ تھانے میں لگے ٹیلی ویژن میں لگی خبر نے ان کے ہوش اُڑ ادئیے۔ خبر میں بتایا جارہا تھا کہ جیسوال بم دھماکے کیس میں وکیل جیسوال خود ہی مجرم ہے اور اسی نے اپنے گھر میں دھماکا کروایا تاکہ اپنے بھائی کو موت کی نیند سلا سکے اور ہر بار کی طرح ایل ایل بی شہباز احمد نے نہ صرف جیسوال کو ہارا دیا ہے بلکہ اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی پہنچا دیا ہے ۔ یہ خبر سن کر ان کے چہرے برسوں کے بیمار نظرآنے لگے۔ اب کیس بند ہونے کے بعد ان کی کوئی بھی تفتیش کارآمد نہیں رہ گئی تھی۔ اب تو انہیں صرف اپنی بہن کی تلاش رہ گئی تھی۔آ ج پہلی بار اپنے والد کی جیت کی خوشی کے بجائے ان کے چہروں پر غم ہی غم نظر آرہا تھا اور وہ کھوئے کھوئے انداز میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔

٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭