مصنف:- شاہد بھائی
قسط نمبر-8
ایل ایل بی شہباز احمد عدالت پہنچ چکے تھے۔ عدالت پہنچنے پر انہیں جیسوال کا مرجھایا ہوا چہرہ صاف نظر آیا۔ وہ سمجھ گئے کہ جیسوال کوئی ثبوت یا گواہ اکٹھے کرنے میں ناکام رہا ہے اور آج کا یہ فیصلہ اس کے خلاف ہی ہونے والا ہے ۔اس بات سے ان کے چہرے پر خوشی کے بجائے غم کے بادل نظر آنے لگے۔وہ جانتے تھے کہ جیسوال اس مرتبہ حق کے ساتھ ہے اور وہ جھوٹ کا ساتھ دے رہے ہیں لیکن وہ اپنی بیٹی کی زندگی کی وجہ سے جھوٹ کے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور تھے۔جج صاحب کے کمرہ عدالت میں داخل ہوتے ہی سب چونکنے ہوگئے اور پھر جج صاحب کی آواز عدالت میں گونج اُٹھی:۔
کیس کی کروائی شروع کی جائے ‘‘ جج شکیل الرحمان بارعب لہجے میں بولے۔
کاروائی کیا ہوگی جج صاحب ۔۔۔ آج تو بس فیصلہ ہوگا۔۔۔ پچھلی سنوائی میں جیسوال صاحب مکمل طور پر ناکام رہے ہیں اور کوئی ایساٹھوس ثبوت یا گواہ پیش نہیں کرسکے جس نے میرے مؤکل منظور کو دھماکے کے وقت ان کے گھر سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھا ہو ۔۔۔ لہٰذا آج آپ نے بس فیصلہ ہی سنانا ہے ‘‘ شہباز احمد بولتے چلے گئے۔
شاید آپ ٹیکسی ڈرائیور کاشف کو بھول رہے ہیں شہباز صاحب۔۔۔ اس نے منظور کو دھماکے کے وقت بھاگتے ہوئے صاف طور پر دیکھا تھا ‘‘جیسوال نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
آپ کے چشمہ دیدگواہ ڈرائیور کاشف نے کیا دیکھا تھا ۔۔۔ اس کا خلاصہ ابھی ہو جائے گا۔۔۔ میں آج سب سے پہلے اس کیس کو آئینہ کی طرح صاف اور واضح کرنے کے لئے کاشف کو کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہتا ہوں‘‘ شہباز احمد جج صاحب سے مخاطب ہوئے۔
اجازت ہے ‘‘ جج صاحب نے سر ہلا دیا۔ ٹیکسی ڈرائیور کاشف ہچکچاتا ہوا کٹہرے میں داخل ہوا۔شہباز احمد اس کی طر ف بڑھے:۔
آپ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ جیسوال صاحب بھری عدالت میں کچھ نہیں کرسکتے ‘‘ شہباز احمدنے عجیب سے لہجے میں کہا جس پر جیسوال چونک کر انہیں دیکھنے لگا ۔ دوسری طرف ڈرائیور کاشف حیرت انگیز بیان دے رہاتھا:۔
مجھے معاف کر دیجئے جج صاحب ۔۔۔ میں بہک گیا تھا۔۔۔ میرا ضمیر مردہ ہوگیا تھا۔۔۔میں نے کل لالچ میں آکر جھوٹا بیان دے دیا تھا ۔۔۔میں نے منظور کو معمول کے مطابق رفتار کے ساتھ ہی دھماکے کے وقت جیسوال صاحب کے گھر سے گزرتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔ میں نے جھوٹا بیان جیسوال صاحب کے کہنے پر دیا۔۔۔ انہیں نے مجھے اس کا م کے لئے پچیس لاکھ روپے دئیے تھے ‘‘ ٹیکسی ڈرائیور معصوم چہرے بنا کر بولتا چلا گیا۔جیسوال کی حیرت کا کیا پوچھنا۔ اس کی حالت ایسی تھی جیسے کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ چہرہ دودھ کی مانند سفید پڑ گیا تھا۔ پسینے کے قطرے اس کے چہرے پر رواں تھے۔دوسری طرف شہباز احمد کی آواز عدالت میں گونج رہی تھی:۔
اب اس بیان کے بعد باقی کیا رہ جاتا ہے ۔۔۔ جیسوال صاحب نے منظور کو پھنسانے کے لئے سب سے پہلے خود یہ بیان دیا کہ انہوں نے اسے گھر سے نکل کر بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔ پھر ٹیکسی ڈرائیور کو بھی پیسے دے کر اپنے ساتھ ملا لیا اور عدالت میں جھوٹی گواہی دینے پر مجبو رکیا۔۔۔ لیکن یہاں یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ جیسوال صاحب نے یہ سب کچھ کیوں کیا؟ ۔۔۔اس سوال کا جواب جاننے کے لئے میں ان کے پڑوس کے بنگلے میں رہایش پذیر شیخ نعمان افتخار کوجو اب تک اس کیس میں گواہ کی حیثیت سے پیش نہیں ہوئے کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہوں گا ۔۔۔ اور ہاں !۔۔۔میں نے اس گواہ کو پیش کرنے کا نوٹس آج صبح ہی عدالت کو بھیجوادیا تھا ‘‘ شہباز احمد آخر میں مسکرا کر بولے۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ اجازت ہے ‘‘ جج صاحب نے اجازت دے دی۔تبھی ایک درمیانے سے قد کا شخص جو جسمانی طور پر کافی صحت مند دکھائی دیتا تھا کٹہرے میں داخل ہوا۔ اس سے قسم لی گئی او ر پھر شہباز احمد اس کی طر ف مڑے۔ جیسوال کا چہرہ اب زرد پڑتا جارہا تھا۔
آپ عدالت کو کیا بتا نا چاہتے ہیں ۔۔۔ جو کچھ بھی آپ جانتے ہیں کھل کر بتائیے‘‘ ایل ایل بی شہباز احمد اسے ہمت دلائی۔
جی ہاں !۔۔۔ میں اس سے پہلے بھی بیان دے سکتا تھا لیکن میری بیو ی نے مجھے مجبور کیا کہ اس طرح کے کیس کے چکروں میں پھنس کر خود کو خوار نہ کروں لیکن اب جب آپ نے آکر مجھ سے ساری باتیں پوچھیں اور مجھے عدالت میں بیان دینے کے لئے راضی کرنے کی کوشش کی تو میرا ضمیر جاگ اٹھا ۔۔۔ا ب میں آپ کو جیسوال صاحب کی نجی زندگی کے بارے میں بتاتا ہوں۔۔۔ دراصل جیسوال صاحب کی اپنے بھائی سے کبھی بھی نہیں بنی۔۔۔ ان کے گھر کے جھگڑے میں روز سنتا تھا ۔۔۔ یہاں تک کہ جیسوال کا بھائی آدھی رات کو بھی جیسوال سے لڑ رہا ہوتا تھا اور اس کی آواز سے میں اپنے گھر میں جاگ جاتا تھا۔۔۔ ایک دن میں نے جیسوال صاحب سے لڑائیوں کی وجہ پوچھی تو انہیں نے بتایا کہ ان کا بھائی سگریٹ نوشی اور دوسرے نشے کرنے کا عادی ہے ۔۔۔وہ کبھی کبھی شراب بھی پی کر گھر آتا ہے ۔۔۔ اس بات پر ان کی اکثر لڑائی رہتی ہے ۔۔۔ یہاں تک کہ جیسوال صاحب نے مجھے یہ بھی بتایا کہ انہیں نے اپنے والد سے کہہ کر اپنے بھائی کو جائیداد سے دستبردار کر دیا ہے ۔۔۔اب ان کے بھائی کا ان کے گھراور گھر کے علاوہ تمام جائیداد میں کوئی حصہ نہیں ہے ‘‘ یہاں تک کہہ کر شیخ نعمان افتخار سانس لینے کے لئے رکا تو جیسوال بول اُٹھا۔
یہاں عدالت میں میری نجی زندگی پر کیوں بحث کی جارہی ہے ۔۔۔یہ تو میرے اور میرے بھائی کا ذاتی معاملہ تھا‘‘ جیسوال نے جل بھن کر کہا۔
آپ کا ذاتی معاملہ اب ذاتی کہاں رہا جیسوال صاحب۔۔۔ آپ نے اس ذاتی معاملے کو ذاتی رہنے دیا ہوتا تو آج یہ شیخ نعمان آپ کی ذاتی باتیں عدالت میں نہ بتا رہے ہو تے‘‘ شہباز احمدمسکر ا کر بولے۔
یہ کیا ذاتی کی گردان شروع کر دی آپ نے ۔۔۔ اس سارے بات چیت سے آپ کیا ثابت کرناچاہتے ہیں‘‘ جیسوال نے جھلا کر کہا۔
صرف یہ کہ آپ کی اپنے بھائی سے تلخ کلامی اس حد کو پہنچ چکی تھی کہ آپ نے اپنے والد سے کہہ کر اسے جائیداد سے عاق کروادیا تھا۔۔۔لیکن پھر بھی آپ کا بھائی نشے آور ادویات چھوڑنے کو تیار نہیں تھا ۔۔۔آخر تنگ آکر آ پ نے اپنے والد سے کہا کہ اسے گھر سے ہی نکال دیا جائے تاکہ آپ کی بدنامی نہ ہو اور آپ کا اپنے بھائی کے ساتھ کوئی رشتہ باقی نہ رہے لیکن آپ کے والد آخر اس کے بھی تووالد تھے ۔۔۔ وہ کیسے اپنے ایک بیٹے کو بدنامی سے بچانے کے لئے دوسرے بیٹے کو گھر سے نکال سکتے تھے ۔۔۔ انہیں نے آپ کو صاف منع کر دیا۔۔۔ آخر روز روز کی لڑائی سے آپ تنگ آگئے ۔۔۔ اورپھر آپ نے تین دن پہلے اپنے بھائی کی سالگرہ کے دن ایک گھناؤنا کھیل کھیلا۔۔۔ آپ نے گھر میں مشہور و معروف وکیلوں کو دعوت میں مدعو کیا او رپھر خود کسی بہانے گھر سے باہر نکل گئے ۔۔۔ وہاں آپ نے گھر کے بیرونی حصے میں بم فٹ کیا اور خود گاڑی میں بیٹھ کر یہ دل دہلا دینے والا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔۔۔ اپنی گاڑی کو بھی گھر سے زیادہ دور نہ کیا تا کہ آپ بھی کسی حد تک زخمی ہوجائیں اور شک کی انگلی آپ کی طرف نہ جائے ۔۔۔ اتفاق سے منظور وہاں سے گزر رہا تھا۔۔۔ اسے میں نے ہی سب انسپکٹر تنویر کے پاس ایک فائل کے لئے بھیجا تھا۔۔۔ آپ نے ایک ساز ش رچی۔۔۔ اپنے آپ کو بچا کر آپ نے سارا الزام منظور پر ڈا ل دیا۔۔۔ اور ٹیکسی ڈرائیور کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا۔۔۔اب آپ کیا کہیں گے جیسوا ل صاحب ۔۔۔ کیا میں صحیح ہوں یا میں صحیح ہوں ‘‘ آخر ی جملہ کہتے ہوئے شہباز احمد کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
آپ بالکل غلط کہتے ہیں ۔۔۔ یہ سب کچھ جھوٹ ہے ۔۔۔ سفید جھوٹ‘‘ جیسوال نے لرزتی آواز کے ساتھ کہا ۔ اس کا بدن ایسے کانپ رہا تھا جیسے سخت سردی کا موسم ہو حالانکہ موسم گرمی کا تھا۔
جج صاحب ۔۔۔ اب آپ کا حکم ہو تو میں خود جیسوال صاحب کو ملزم کے کٹہرے میں پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا‘‘شہباز احمد نے جج صاحب سے کہا۔
اب تک کی آپ کی دلیل کافی مضبوط رہی ہے ۔۔۔ اور اس سے یہی بات سمجھ میں آرہی ہے کہ جیسوال صاحب اس کیس میں خود ہی مجرم ہیں۔۔۔ بہر حال جیسوال صاحب کو کٹہرے میں پیش کرنے کی بالکل اجازت ہے‘‘ جج صاحب نے شہباز احمدکی باتوں سے متفق ہوتے ہوئے کہا۔یہ سن کر جیسوال دھک سا رہ گیا۔ آج تک وہ دوسروں کو کٹہرے میں پیش کرنے کی اجازت مانگتا تھا لیکن آج وہ خود ایک ملزم کے روپ میں کٹہرے میں پیش ہو رہا تھا۔ اس کے چہرے پر مایوسی کے بادل گہرے ہوتے جارہے تھے۔ اب تک وہ منظور کو گناہ گار ثابت کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اب اسے پہلے خود کو بے گناہ ثابت کرنا تھا۔ ایک ہی پل میں شہباز احمد کی دلیلوں نے کیس کا رخ پلٹ کر رکھ دیا تھا۔ آخر جیسوال کٹہرے میں آکھڑا ہوا۔ اس کے جسم سے جیسے ساری جان نکل چکی تھی۔
آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے یا کوئی گواہ ہے جو آپ کو بے قصور ثابت کر دے‘‘ جج شکیل الرحمان نے جیسوال کو صفائی پیش کرنے کا موقع دیا۔
میرے گواہ میرا خدا ہے جج صاحب۔۔۔ وہ ہی ایک ایسی ذات ہے جو جانتی ہے کہ میں بے قصور ہوں۔۔۔ اور کوئی بھی میرا مددگار نہیں سوائے اس اوپر والے کے ۔۔۔ اب وہی مجھے انصاف دلا سکتا ہے‘‘ جیسوال نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ شہباز احمد چونک کر اسے دیکھنے لگے۔ ایک ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص کی زبان سے یہ الفاظ انہیں اندر تک ہلا گئے تھے۔وہ بڑی مشکل سے خود کو سنبھالے ہوئے کھڑے تھے۔
اس کا مطلب ہے آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔۔۔ پھر تو میں اپنا فیصلہ سنانے پر مجبو رہوں۔۔۔ یہ عدالت ایم اے جیسوال یعنی موہن ابھیشیک جیسوال کو اس کیس میں گناہ گار تسلیم کرتی ہے ۔۔۔ اور انہیں گرفتار کرنے کا حکم سناتی ہے ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہیں اپنے بھائی اپنے ماں باپ اورکئی مشہور وکیلوں کو بم دھماکے کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتارنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سناتی ہے ۔۔۔ کیس بند ہوتا ہے‘‘ یہ کہتے ہوئے جج صاحب نے ہتھوڑا لکڑی کی پلیٹ پر مارا اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ دوسری طرف سب انسپکٹر تنویر جیسوال کے ہاتھوں میں ہتھکڑی کا جوڑا پہنانے کے لئے آگے بڑھااور پھر اسے ہتھکڑی پہنا کر کٹہرے سے باہر لے آیا۔ یہاں شہباز احمد کھوئے کھوئے انداز میں کھڑے تھے جیسے ا س کیس میں ان کی جیت نہیں ہا رہو چکی ہو۔
کیا ہوا شہباز صاحب ۔۔۔ آپ کے چہرے پرپریشانی کیسی۔۔۔ آپ تو جیت چکے ہیں ۔۔۔ اور آج میں ہار گیا ہوں۔۔۔لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔۔۔میں نے سچ کا ساتھ دیا ہے اس لئے میں ہار کر بھی ہارا نہیں ہوں اور آپ نے جھوٹ کا ساتھ دیا ہے اس لئے آپ جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔۔۔ آج آپ نے مجھے اس دنیا کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا ہے نہ ۔۔۔ میں نے تو آپ کو اوپر والے کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر دیاہے۔۔۔ اس عدالت کی سزا تو بالکل معمولی ہے ۔۔۔اصل سزا تو ا س عدالت میں ہوگی جہاں آپ کی دلیلیں بھی بے کارہو جائیں گے۔۔۔ کیونکہ اس رب کی عدالت میں جیت دلیلوں سے نہیں ہوتی بلکہ سچائی سے ہوتی ہے۔۔۔مجھے تو آپ نے صرف دو منٹ کے لئے کٹہرے میں کھڑ ا کیا لیکن میں آپ کو زندگی بھر کے لئے اپنے ضمیر کے کٹہرے میں کھڑا کر رہا ہوں۔۔۔جہاں سے آپ کبھی بھی باہر نہیں آئیں گے‘‘ جیسوال نے ایک ایک لفظ ٹھہرٹھہر کر کہا۔ اس کی باتوں میں ایک ایسا یقین تھا جس نے ایل ایل بی شہباز احمد کو اندر تک توڑ کر رکھ دیا۔ انہیں اپنا وجود بے معنی محسوس ہوا۔ انہیں قرآن کی وہ آیات یاد آگئیں جس میں حکم ہے کہ سچائی کا ساتھ دو چاہے وہ تمہارے اپنے کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔دوسری طرف جیسوال کو قرآن کا علم بالکل نہیں تھا لیکن اس کی ساری باتیں قرآنی نظر آرہی تھی۔ وہ ہارنے کے بعد بھی سینہ چوڑا کرکے عدالت سے نکل رہا تھا جبکہ شہباز احمد جیتنے کے بعد بھی اپنے آپ سے نظریں نہیں ملا پا رہے تھے۔
٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭
Bookmarks