google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 10 of 12

    Thread: Mujrim Ka Case - Suspense Full Novel - Written By Shahid Bhai

    Threaded View

    1. #7
      New Member Shahid Bhai's Avatar
      Join Date
      Apr 2017
      Posts
      19
      Threads
      3
      Thanks
      2
      Thanked 10 Times in 8 Posts
      Mentioned
      1 Post(s)
      Tagged
      0 Thread(s)
      Rep Power
      0

      Re: Mujrim Ka Case - Suspense Full Novel - Written By Shahid Bhai

      مجرم کا کیس
      مصنف:- شاہد بھائی
      قسط نمبر-7


      اپنے والد کا مجرمانہ روپ دیکھ وہ حیرت کا بت بنے کھڑے تھے۔ سب کی زبان ساکت ہوکر رہ گئی تھی۔ کافی دیر تک و ہ یونہی خالی خالی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔آخر سلطان کی حیرت میں ڈوبی آواز سنائی دی:۔
      اباجان جھوٹی گواہی دینے کے لئے ٹیکسی ڈرائیور کو پیسے دے رہے ہیں ۔۔۔ مجھے تو یقین نہیں آرہا‘‘ سلطان کے چہرے پر حیرت کا سمند موجھیں ماررہا تھا۔
      میرا خیال ہے ان سب باتوں پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ ہم اباجان کو جانتے ہیں وہ ضرورکسی مقصد کے تحت یہ کام کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔۔۔ اور مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ وہ مقصد سادیہ کے اغوا سے جڑا ہوا ہے ۔۔۔اس لئے ہمیں اب وقت ضائع کئے بغیر سادیہ کی تلاش میں نکلنا ہوگا‘‘عرفان نے پر جوش لہجے میں کہا۔
      لیکن اگر ہمیں سادیہ نہ ملی تو ہم رات کہاں گزاریں گے۔۔۔ امی جان نے تو کہا ہے کہ سادیہ کو لئے بغیر گھر واپس نہیں آنا‘‘سلطان نے پریشان ہو کر کہا۔
      اس سے زیادہ اچھی اور پرامید بات یہ ہے کہ ہم سادیہ کو تلاش کرکے آج ہی گھر واپس چلے جائیں گے۔۔۔ تمہاری ذہن میں منفی سوچ ہی کیوں آتی ہے ‘‘ عمران جھلا کر بولا۔
      بس بھئی ۔۔۔ اب ہمیں اور وقت ضائع نہیں کرنا‘‘ یہ کہتے ہوئے عرفان نے سامنے سے آتی ہوئی ایک ٹیکسی کو ہاتھ کے اشارے سے روکااور پھر اس میں سوار ہوگیا۔ باقیوں نے بھی دیر نہ لگائی۔ٹیکسی ڈرائیور نے انہیں سوالیہ نگاہوں سے دیکھا:۔
      شوکت آباد لے جاؤ‘‘ عرفان نے جلدی سے کہا جس پر ٹیکسی ڈرائیور نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ دوسرے ہی لمحے ٹیکسی فراٹے بھرتی اُڑی جارہی تھی۔
      اب شوکت آبادیعنی سادیہ کی سہیلی کائنات کے گھر جا کر تم کیا کرو گے۔۔۔ ہم تو اس دن کائنات سے ساری تفصیل پوچھ آئے تھے لیکن کوئی کام کی بات معلوم نہیں ہوئی تھی‘‘عدنان نے حیران ہو کر کہا۔
      اتنا تو ہمیں معلوم ہی ہے کہ سادیہ کو ہمارے گھر اور کائنات کے گھر کے درمیان میں راستے پر سے کہیں اغوا کیا گیا ہے ۔۔۔ اس لئے ہمیں اسے تلاش کرنے کا سلسلہ بھی کائنات کے گھر سے ہی شروع کرنا ہے اور پھر تلاش کرتے کرتے اپنے گھر تک پہنچنا ہے‘‘ عرفان نے وضاحت کی جس پر سب نے سرہلا دیا۔ تھوڑ ی دیر بعد وہ ٹیکسی سے نیچے اتر کر کائنات کے گھر کے دروازے پر کھڑے تھے۔ ٹیکسی ڈرائیور کو انہوں نے کرایہ دے کر چلتا کر دیا۔اب وہ کائنات کے گھر کی گلی میں کھڑے ایک دوسرے کو گھور رہے تھے۔
      مجھے یقین نہیں آرہا کہ ہم پرائیوٹ جاسوس ہے ۔۔۔ آخر ہم سادیہ کو تلاش کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو گھو ر کیوں رہے ہیں‘‘ عمران نے جھلا کر کہا۔
      وہ اس لئے بھائی کہ یہ ہمارا پہلا کیس ہے ۔۔۔ اب تک ہم نے صرف اپنا ادارہ رجسٹرڈ کروایا ہے ۔۔۔ تفتیش کرنے کا موقع ہمیں اب تک نہیں ملا لہٰذا ایک دوسرے کو گھورنے کے علاوہ ہم کربھی کیا سکتے ہیں‘‘ سلطان نے مسکر اکر کہا۔
      وقت ضائع کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔۔۔ سلطان اس کام میں ہم سے بہت آگے ہے‘‘ عرفان نے جھلا کر ران پر ہاتھ مارا۔
      تفتیش کا سلسلہ آس پاس کی دکانوں سے ہی شروع کیا جا سکتا ہے ۔۔۔ شاید یہاں کسی نے کچھ ایسا دیکھا ہو جو ہمارے کام آسکے ‘‘ عدنان نے ان کی باتوں پر توجہ دئیے بغیر کہا۔
      ٹھیک ہے۔۔۔ تم اور سلطان دائیں طرف والی دکانوں میں پوچھ گچھ کرو ۔۔۔ میں اور عمران بائیں طرف کی دکانوں کو دیکھتے ہیں‘‘ عرفان نے کام بانٹ لیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ دکانوں میں تفتیش کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ سلطان اور عدنان دائیں طرف کی دکانوں میں ایک ایک کرکے جارہے تھے جبکہ عرفان اور عمران بائیں طرف والی دکانوں میں تفتیش کر رہے تھے لیکن نتیجہ کہ طور پر وہ ناکام سے ہی دوچار رہے ۔ آخر انہیں نے ہر دکان دیکھ ڈالی لیکن کسی سے بھی کوئی کام کی بات معلوم نہ ہوسکی ۔ کسی نے بھی سادیہ کو اس طرف آتے نہیں دیکھا تھا۔ا نہیں نے شناخت کے لئے تصویر بھی دکھائی لیکن جواب پھر بھی مایوس کن ہی رہا۔ آخر آدھے گھنٹے بعد وہ پھر ایک جگہ جمع ہوگئے۔ سب کے چہروں پر ناکامی صاف نظر آرہی تھی۔
      اس گلی کی سارے دکان دار ہماری شکست کا اعلان کر رہے ہیں۔۔۔ میرا خیال ہے ہمیں یہاں سے آگے مرکزی سڑک کی طرف جانا چاہیے۔۔۔ وہاں پر کسی نے شاید کچھ دیکھا ہو‘‘ عرفان نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔
      نہیں !۔۔۔ وہ مین سڑک ہے ۔۔۔ وہا ں گاڑیوں کی چہل پہل ہر وقت رہتی ہے ۔۔۔ ہمیں کسی ایسی جگہ تفتیش کے گھوڑے دوڑانے ہوں گے جہاں دوپہر کے وقت بالکل سناٹا ہوتا ہو۔۔۔ وہاں سے سادیہ کو اغوا کرنے میں اغوا کاروں کو کوئی مشکل پیش نہیں آئی ہوگی‘‘عدنان نے جلدی جلدی کہا۔
      اس کے لئے ہمیں ایک بار پھر ٹیکسی میں اپنے گھر کی طرف روانہ ہونا ہوگا۔۔۔ راستے میں سنسان سڑک دیکھ کر تفتیش کرنے کے لئے ٹیکسی سے اتر جائیں گے‘‘ سلطان نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔
      ٹھیک ہے ۔۔۔ یہ ابھی ہو جائے گا‘‘عمران نے فوراً کہا اور ایک ٹیکسی کو اشارے سے رکوایا۔دوسرے ہی لمحے اس نے ٹیکسی ڈرائیور کو اپنے گھر کا پتا بتا دیا اورساتھ میں ڈرائیور کو ٹیکسی کی رفتار سست رکھنے کی بھی درخواست کی۔ جلد ہی وہ ٹیکسی میں سوار اپنے گھر کی سڑک پر چلے جارہے تھے۔تبھی سلطان بری طرح چونکا۔ وہ سب حیران ہو کر اسے دیکھنے لگے:۔
      کیا ہوا بھائی۔۔۔ چیونٹی کاٹ گئی کیا‘‘عمران حیرت زدہ تھا۔
      نہیں وہ دیکھو۔۔۔ میک اپ کے سامان کی دکان‘‘ سلطا ن پرجوش لہجے میں بولا۔
      تو کیا تم نے اب میک اپ کرنا بھی شروع کردیا‘‘ عمران نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا۔
      نہیں !۔۔۔ بھلا میں اپنے بڑے بھائی کی نقل کیسے اتار سکتاہوں‘‘سلطان نے شوخ لہجے میں کہا۔
      بھئی ۔۔۔ میں کتنی بار کہوں ۔۔۔و قت ضائع نہیں کرنا ‘‘ عرفان نے جلے کٹے انداز میں کہا۔
      اوہ !۔۔۔ ہاں ۔۔۔میں کہہ رہا تھا کہ سادیہ کو میک اپ کرکے خوبصورت دِکھنے کا بہت شوق ہے۔۔۔ اور حسن افروز سامان دیکھ وہ اپنے آپ کو روک نہیں پاتی ۔۔۔ ہو سکتا ہے وہ اس دن بھی میک اپ کے سامان دیکھنے اس دکان میں گھس گئی ہو‘‘ سلطان نے مسکراتے ہوئے سامنے کوسمیٹک کی دکان کی طرف اشارہ کیا۔دوسرے ہی لمحے اس کی بات سن کر دوسرے بھی چونک اُٹھے۔ اب انہوں نے کچھ او رپوچھ کر دیر کرنا مناسب نہ سمجھا اور ٹیکسی ڈرائیور کو انتظار کرنے کا اشارہ کرکے ٹیکسی سے اتر کر دکان کے اندر داخل ہوگئے۔دکان کا مالک ان کا حلیہ دیکھ کر سمجھ گیا کہ ان کا تعلق کسی بڑے گھرانے سے ہے ۔ اگلے ہی لمحے وہ ان کے سامنے بچھا جا رہا تھا۔
      کیا لیں گے آپ ۔۔۔ یہاں ہر قسم کی کوسمیٹک کی چیزیں میسر ہیں‘‘ دکان دار خوش اخلاقی سے بولا۔
      ہمیں ایک عدد سادیہ دکھا دیں‘‘ سلطان نے مسکر ا کر کہا جس پر دکان دار حیران ہو کر اسے دیکھنے لگا۔دوسرے اسے بری طرح گھورنے لگے۔
      یہ میرے بھائی کو مذاق کرنے کی بہت عادت ہے ۔۔۔ اسے چھوڑئیے ۔۔۔ا ور میر ی بات غور سے سنیے ۔۔۔ آپ نے اس لڑکی کو تین دن پہلے کوئی سامان فروخت کیا تھا‘‘ یہ کہتے ہوئے عرفان نے موبائل فون سے سادیہ کی تصویر دکھائی۔ دکان دار تصویر دیکھ کر سوچ میں پڑ گیا۔پھر وہ چونک اُٹھا۔ اسے چونکتے دیکھ ان کے چہرے جوش سے بھر گئے۔
      یہ لڑکی تین دن پہلے دوپہر کے وقت میری دکان میں آئی تھی۔۔۔ بہت غیرمطمئن لڑکی تھی۔۔۔ ہر چیز دیکھنے کے بعد بھی ایک چیز بھی لے کرنہیں گئی‘‘ دکان دار منہ بنا کر بولا۔
      اس معاملے میں وہ اپنے بھائی عرفان پر گئی ہے ‘‘ سلطان ہنس کر بولا۔
      اچھا۔۔۔ آپ کی دکان سے جانے کے بعد وہ کہاں گئی ۔۔۔ کس طرف گئی ۔۔۔ اس بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں آپ‘‘ عرفان نے ایسے کہا جیسے اس نے سلطان کی بات سنی ہی نہ ہو۔
      میں اس وقت بہت مصروف تھا۔۔۔ دکان میں کافی رش تھا۔۔۔ اس وجہ سے واضح طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔۔۔ البتہ آپ اس کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں‘‘دکان دار نے الجھن کے عالم میں کہا۔
      وہ ہماری بہن تھی اور وہ تین دن سے غائب ہے ۔۔۔نہ جانے کہاں چلی گئی ہے۔۔۔ہمیں لگتا ہے کہ اسے اغوا کر لیا گیا ہے ۔۔۔ا س لیے ہم اسے تلاش کرنے نکلے ہیں‘‘ عرفا ن نے بھر ائی ہوئی آواز میں جلدی جلدی کہا ۔دکان دار نے ہمدردانہ نگاہیں اس کی طرف اٹھائیں۔
      دکان کے باہر سی سی ٹی وی کیمرہ لگا ہوا ہے ۔۔۔ ہو سکتا ہے اس کیمرے میں ریکارڈ ہوگیا ہو کہ و ہ کس طرف گئی تھی ۔۔۔ یا اسے کون ساتھ لے گیا۔۔۔آئیے میں آپ کو وہ کیمرے کی ریکارڈنگ دکھا دیتاہوں‘‘ دکان دار نے نرم آواز میں کہا جس پر ان سب کے چہرے ایک بار پھر جوش سے تمتما اٹھے۔ دکان دارکے اشارے پر وہ دکان کے اندرونی حصے کی طرف گئے ۔ یہاں ایک کمپیوٹر رکھا ہوا تھا جس پر کیمرے کی فوٹیج لگی ہوئی تھی۔ دکان دار آگے بڑھا اور فوٹیج کو ریوائنڈ کرکے تین دن پہلے دوپہر کی فوٹیج لگائی۔ ان سب کی نگاہیں ٹی وی سکرین پر جم کر رہ گئیں۔ سکرین پر ایک ایک گاہک دکان کے اندر جا رہا تھا اور اپنی پسند کی چیز خرید کرباہر نکل رہا تھا۔تبھی وہ سب چونک اُٹھے۔ انہیں سادیہ دکان کے اندر جاتی نظر آئی۔ پھر کافی دیر تک وہ دکان کے اندر ہی رہی ۔آخر وہ باہر نکلی اور کائنات کے گھر کی طرف جانے والی سڑک کا رخ کیااور پھر ان سب کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔ دن دھاڑے ایک شخص پوری رفتا رسے گاڑی دوڑاتا ہوا آیا اور سادیہ کے بالکل پاس آکر گاڑی کی رفتار ایک پل کے لیے سست کی اور پھر اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے زبردستی گاڑی میں بیٹھا لیا ۔ دوسرے ہی لمحے گاڑی فراٹے مارتی وہاں سے روانہ ہوگئی۔ یہ سب کچھ اس رفتار سے ہوا کہ کوئی دھیان ہی نہ دے پایا۔ ویسے بھی اس وقت دکان میں رش بہت زیادہ تھی اس لئے کسی کو بھی سادیہ کے ساتھ رونما ہونے والے حادثے کی بھنک بھی نہ لگی۔آخر گاڑی سکرین پر سے غائب ہوگئی۔
      ریکارڈنگ کو ایک منٹ پیچھے ریوائنڈ کریں اور وہاں سے دوبارہ لگائیں جہاں گاڑی سادیہ کے قریب گئی تھی‘‘ عرفان نے الجھن کے عالم میں کہا۔دکان دار نے سر ہلا دیا اورفوٹیج کو ریوائنڈکیا۔ جیسے ہی سکرین پر گاڑی سادیہ کے قریب آتی نظر آئی۔ عرفان بول اُٹھا:۔
      بس اب یہاں روک دیں۔۔۔اور گاڑی کے نمبر پلیٹ کی طرف زوم کریں‘‘عرفان فوراً بولا۔ دکان دار نے نمبر پلیٹ کی طرف زوم کیا تو گاڑی کا نمبرصاف نظر آنے لگا۔ عرفان نے سلطان کو اشارہ کیا۔ اس نے بنا کچھ بولے اپنی جیب سے نوٹ بک ڈائری نکالی اور نمبر اس پر لکھ کر نوٹ کر لیا۔پھر وہ واپس دکان کے بیرونی حصے کی طرف نکل آئے۔
      آپ نے ہماری بہت مددکی۔۔۔ ہم آپ کے بہت شکر گزار ہیں‘‘ عرفان جذبات سے بھرے ہوئے لہجے میں بولا جس پر دکان دار نے اس کے کندھے پر تھپتھپا کر اسے دلاسا دیا اور پھر وہ سب دکان سے باہر نکل آئے۔ عرفان نے جیب سے موبائل فون نکالا اور گاڑی کی رجسٹریشن افس کے نمبر ڈائل کئے ۔ سلسلہ ملنے پر دوسری طرف سے آوازآئی:۔
      اسلام علیکم سر۔۔۔ گاڑی کی رجسٹریشن کرانے کے لئے ہماری سروس چوبیس گھنٹے میسرہے ‘‘ دوسری طرف سے خوش اخلاقی سے کہا گیا۔
      میں آپ کو ایک گاڑی کا نمبر بتا رہاہوں۔۔۔ آپ سے معلومات لینی ہے کہ یہ گاڑی کس کے نام پر رجسٹر ہے۔۔۔ہماری بہن کو اس گاڑی میں بیٹھا کر اغوا کیا گیا ہے ۔۔۔ہم آپ کی مدد چاہتے ہیں‘‘ عرفان نے جلدی جلدی کہا اور سلطان سے ڈائری لے کر گاڑی کا نمبر بتا دیا۔ دوسری طر ف سے خاموشی چھا گئی۔
      یہ گاڑی کسی سراج معین صاحب کے نام پر رجسٹر ڈ ہے ‘‘ دوسری طرف سے آواز سنائی دی۔
      سراج معین صاحب کا مکمل پتا بتا سکتے ہیں‘‘ عرفان نے درخواست کی۔
      منصورہ روڈ۔۔۔بنگلہ نمبر ۱۲‘‘ دوسری طرف سے کہا گیا جس پر عرفان نے شکریہ کہہ کر فون رکھ دیا۔ان سب نے سوالیہ نگاہوں سے عرفان کی طرف دیکھا جس پر وہ انہیں فون پر ہونے والی گفتگو بتانے لگا۔

      ٭٭٭٭٭
      باقی آئندہ
      ٭٭٭٭٭


      Last edited by Shahid Bhai; 08-07-2018 at 07:01 PM.

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •