مجرم کا کیسمصنف:۔ شاہد بھائی
قسط نمبر-5
صبح عرفان برادرز کی آنکھ کھولی تو وہ چونک اُٹھے ۔ ایل ایل بی شہباز احمد ان سے پہلے ہی جاگے ہوئے تھے اور اخبار کے مطالعہ میں مصروف تھے ۔ عرفان بردراز آنکھیں ملتے ہوئے اُٹھے اور منہ ہاتھ دھو کر باہر برآمدے میں آئے اورتوانہیں نے اپنی امی کو باورچی خانے میں اصلی گھی میں ڈوبے ہوئے گرم گرم پراٹھے بناتے ہوئے دیکھا۔ پراٹھوں کی خوشبو ان کی سانسوں میں گئی تو بے اختیار ان کی بھوک میں اضافہ ہوگیا البتہ شہباز احمد کی نظریں اخبار سے باہر کو نہ اُٹھیں۔ انہیں نے ایک بار بھی نہ ناشتے کی طرف دیکھا اور نہ ہی عرفان بردرز کی طرف۔جب تک وہ سب ناشتہ کرتے رہے شہباز احمد اخبار پڑھتے رہے ۔ جب انہوں نے ناشتہ مکمل کر لیا تو شہباز احمد اخبار رکھ کر اُٹھ کھڑے ہوئے اور ایک سرد آہ بھری:۔
آہ!!!۔۔۔ بیگم میں کسی کام سے باہر جا رہا ہوں ۔۔۔ ناشتہ آکر کرلوں گا‘‘ شہباز احمد نے دروازے سے ہی اونچی آواز میں کہا اور پھر گھر سے باہر نکل گئے ۔ عرفان عدنان عمران اور سلطان ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہ گئے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ اچانک ایل ایل بی شہباز احمد کو کیا ہوگیا ہے؟ وہ فوراً اخبار کی سمت گئے اور اخبار کھول کر پڑھنا شروع کیا ۔ دوسرے ہی لمحے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ اخبار میں ایک خبر پڑھ کر وہ حیران رہ گئے تھے۔ خبر کے الفاظ تھے:۔
ایم اے جیسوال کا ایل ایل بی شہباز احمد کو کھلا چیلنج ۔۔۔ ایم اے جیسوال کا کہنا ہے کہ اگر شہباز احمد میں دم ہے تواپنے اسسٹنٹ منظور کا کیس لے کر دکھائیں۔۔۔ انہیں نے شہباز احمد کو صرف آج شام تک کا وقت دیا ہے کیونکہ کل صبح عدالت میں بم دھماکا کیس کی سنوائی شروع ہو جائے گی ۔۔۔ یاد رہے کہ کل شام کومشہور وکیل جیسوال کے گھر زبردست دھماکا ہوا تھا اور دھماکے کے بعد شہباز احمد کے اسسٹنٹ منظور کو وہاں سے بدحواسی کے عالم میں بھاگتے ہوئے دیکھا گیا تھا ۔۔۔ کل شام کو ہی پولیس نے منظور کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا تھا۔۔۔ اب اس کیس میں آگے کیا ہوگا یہ جاننے کے لئے سب ہی بے چین ہیں‘‘ ۔ مکمل خبر پڑھ کر وہ حیرت کا بت بنے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ اپنے والد کا بیماری کی حالت میں بھی صبح جلدی اُٹھ کر اخبا ر پڑھ کر گھر سے نکل جانا انہیں سمجھ نہیں آیا تھا اور اب اخبار کی اس خبر نے انہیں اور زیادہ بے چین کردیا تھا۔ شام تک وہ گھر میں بے چینی کے عالم میں اپنے اباجان ایل ایل بی شہباز احمد کا انتظار کرتے رہے لیکن وہ نہ آئے ۔ آخر رات کو دس بجے کے قریب جب وہ گھر میں داخل ہوئے توتھکاوٹ ان کے چہر ے سے نظر آرہی تھی۔ وہ تھکے تھکے انداز میں بنا کچھ بولے اپنے کمرے کی طرف چلے گئے ۔ عرفان اور دوسرے ان کے کمرے میں آئے تو انہیں نے دیکھا کہ شہباز احمد اپنے بستر پر نیم دراز بے خبر گہری نیند سو چکے ہیں ۔ انہوں نے آکر کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ بیگم شہباز بھی ان کا کھانا کے وقت انتظار کرتی رہی تھیں لیکن انہوں نے گھر آکر کھانا کھانے کے بجائے سونے کو ترجیح دی تھی۔ بیگم شہباز پریشانی کے عالم میں انہیں دیکھنے لگیں۔
امی جان ۔۔۔ پریشا ن نہ ہوں۔۔۔ کل صبح اباجان سے ساری پوچھ گچھ کر لیں گے‘‘ سلطا ن نے مسکرا کر کہا جس پر وہ سب بھی زبردستی مسکرا دئیے۔صبح جب ان کی آنکھ کھلی تو ایک بار پھر انہوں نے اپنے اباجان کو اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے پایا۔ وہ فوراً منہ ہاتھ دھو کر ناشتے کی میز پر آئے ۔ اس سے پہلے کہ وہ شہباز احمد سے کچھ پوچھ پاتے وہ خود ہی بو ل اٹھے:۔
جلدی جلدی ناشتہ کرلو ۔۔۔ پھر میرے ساتھ عدالت چلنا ہے ۔۔۔آج بم دھماکا کیس کی پہلی سنوائی ہے ‘‘ ایل ایل بی شہباز احمد کے چہرے پر تھکی تھکی مسکراہٹ تھی۔ان کی اس مسکراہٹ نے ان لوگوں سے ہر سوال کرنے کا موقع چھین لیا تھا۔ ان کی زبانوں کو جیسے تالے لگ گئے۔وہ چپ چاپ ناشتہ کرنے لگے۔ ایل ایل بی شہباز احمد نے بھی دو تین لقمے لئے اور پھر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ عرفان برادرز نے بھی اُٹھ کر ہاتھ دھوئے اور جانے کے لئے بالکل تیا ر ہوگئے۔شہباز احمد نے اپنی بیگم کی طرف الوداعی نظروں سے دیکھا اور گھر سے باہر نکل گئے ۔ عرفان برادرز نے بھی دیر نہ لگائی۔شہباز احمد نے اپنی گاڑی نکالی۔ عرفان برادرز کو ساتھ لیا اورسٹی کورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔راستے میں ایل ایل بی شہباز احمد کی نہایت سخت آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی:۔
کل تم لوگوں نے جیسوا ل صاحب کے گھر کیا دیکھا تھا‘‘ ایل ایل بی شہباز احمد کی اس آواز نے ان کے جسموں میں خوف کی ایک لہر دوڑا دی ۔ان کے جسم تھرا گئے کیونکہ آج تک انہوں نے اس لہجے میں ان سے بات نہیں کی تھی۔
ہم نے دھماکے کے ٹھیک دو منٹ پہلے منظور کو انکل جیسوا ل کے گھر کے باہربدحواسی کے عالم میں بھاگتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔اس کے بعد ہم نے اسے پکڑ لیا اورسب انسپکٹر تنویر کے حوالے کر دیا۔۔۔میں نے اس کے سر پر پتھر مار کر اسے بے ہوش کر دیا تھا‘‘ سلطان نے بڑی مشکل سے الفاظ ادا کئے ۔ آج اس سے بھی بات نہیں کی جارہی تھی۔
ٹھیک ہے ۔۔۔اب جو میں کہہ رہا ہوں تم نے عدالت میں وہی بیان دینا ہے ۔۔۔ تم نے کل منظور کومعمول کے مطابق رفتار کے ساتھ جیسوال صاحب کے گھر کے پاس سے گزرتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔تمہیں غلط فہمی ہوگئی کہ وہ اس دھماکے میں شامل ہے۔۔۔ لہٰذا تم نے اسے زخمی کر دیا ۔۔۔ وہ بے چارہ چلا چلا کر اپنی بے گناہی کا اعلان کرتا رہالیکن تم نے اسے مار مار کر بے ہوش کر دیا اور پھر سب انسپکٹر تنویر کے حوالے کر دیا۔۔۔ سمجھ گئے ‘‘ ایل ایل بی شہبا ز احمد سرد لہجے میں بولے جس پر انہوں نے حیران ہو کر انہیں دیکھا۔ لیکن شہباز احمد نے انہیں بری طرح گھور کر دیکھا جس پر وہ سہم گئے اور اثبات میں سر ہلا دیا۔عدالت پہنچے تو ایم اے جیسوال کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔ شہباز احمد اس کے قریب گئے اور خود بھی مسکرا کر اسے دیکھنے لگے:۔
آج تو میں یہ کہتے ہوئے حق بجانب ہوں کہ یہ کیس میں پانچ منٹ کے اندر اندر جیت جاؤں گا۔۔۔ بلکہ آج تو آپ کا چہرہ بھی اپنی شکست کا چیخ چیخ کر اعلان کر رہا ہے‘‘ ایم اے جیسوال کے لہجے میں شوخی تھی۔
میرا چہرہ تو کسی اور وجہ سے مایوس دکھائی دے رہا ہے جیسوال صاحب۔۔۔ وہ وجہ آپ نہیں سمجھیں گے ۔۔۔بہرحال اس کیس میں میری فتح اورآپ کی شکست لکھی جا چکی ہے۔۔۔اور ساتھ میں سچائی کی بھی شکست لکھی جا چکی ہے‘‘یہ کہتے ہوئے شہباز احمد کے چہرے پر عجیب سے تاثرات تھے۔ جیسوال حیران ہو کر انہیں دیکھنے لگا۔تبھی جج صاحب کی آمد کا اعلان کیا گیا اور جج شکیل الرحمان عدالت میں داخل ہوگئے اور پھر اپنی کرسی پر بیٹھنے کے بعد وہ اونچی آوا زمیں بولے:۔
کیس کی کروائی شروع کی جائے ‘‘ جج صاحب نے حکم دیتے ہوئے کہا۔
جج صاحب۔۔۔ یہ کیس خود میرے گھر کا ہے ۔۔۔ پرسوں سوموار کے دن دوپہر کو میرے گھر پر میرے بھائی آکاش کی سالگرہ کی پارٹی تھی ۔۔۔ میں نے بڑے بڑے وکیلوں کو بلایا ہوا تھا۔۔۔ پارٹی اپنے عروج پرتھی کہ مجھے کسی کام سے گھر سے باہر جانا پڑ گیا۔۔۔ جب میں گاڑی نکال کر گھر کے صدر درواز ے سے نکل رہا تھا تومیں نے شہباز صاحب کے اسسٹنٹ منظور کو اپنے گھر کی دیوار پھلانگ کر بھاگتے ہوئے دیکھا۔۔۔ ابھی میں حیرت زدہ ہی تھا کہ ایک زبردست دھماکا ہوا اور میری گاڑی الٹ گئی۔۔۔ اس کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں۔۔۔ اس لئے سب سے پہلے شہبازصاحب کے مؤکل منظور کے خلا ف پہلا گواہ میں خود ہی ہوں‘‘یہ کہتے ہوئے جیسوا ل مسکرا اُٹھا۔
اس طرح تو منظور کے حق میں پہلا گواہ میں بھی خودہی ہوں کیونکہ میں نے ہی اسے سب انسپکٹر تنویر کے پاس کسی کیس کی فائل لانے بھیجا تھا۔۔۔ سب انسپکٹر تنویر کا تھانے اور میرے گھر کے درمیان آپ کا گھر ہے اس لئے اس کا آپ کے گھر کے پاس سے گزرنا لازمی تھا‘‘شہبا زا حمد نے دلیل دی۔
آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ آپ نے اسے سب انسپکٹر تنویر کے پاس کسی فائل کیلئے بھیجا تھا‘‘ جیسوال نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
تو پھر آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ آپ نے میرے مؤکل کو اپنے گھر کی دیوار پھلانگ کر بھاگتے ہوئے دیکھا تھا‘‘شہباز احمد نے پلٹ کر ترکی بہ ترکی جوا ب دیا۔
میرے پاس گواہ موجود ہے شہباز صاحب۔۔۔اس وقت ایک ٹیکسی ڈرائیور بھی وہاں موجود تھا۔۔۔ میں ٹیکسی ڈرائیور کاشف کو کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہوں گا‘‘ یہ کہتے ہوئے جیسوا ل نے جج صاحب کی طرف دیکھا۔
اجازت ہے ‘‘ جج صاحب نے کہا جس پر ٹیکسی ڈرائیور کاشف کٹہرے کی طرف آیا۔ اس نے قسم کھائی کہ سچ کے سوا کچھ نہ کہے گا۔پھر جیسوال اس کی طرف مڑا۔
آپ نے پرسوں دوپہر کوکیا دیکھا۔۔۔ عدالت کو تفصیل سے بتائیے‘‘جیسوال نے نرم لہجے میں کہا۔
میں پرسوں ایل ایل بی شہباز احمد کے بچوں کو اپنے ٹیکسی میں بٹھائے لے جا رہا تھا کہ راستے میں اچانک ایک زبردست دھماکا ہوگیا۔۔۔میر ی ٹیکسی ابھی دور تھی اس لیے وہ دھماکے کے بارود سے بچ گئی۔۔۔ دھماکے کے بعد میں نے اِس منظور کو وہاں سے بھاگتے ہوئے دیکھا۔۔۔ابھی میں پریشان ہی تھا کہ شہبا ز احمد کا ایک لڑکا ٹیکسی سے اُترا ۔۔۔اس کے پیچھے دوسرا لڑکا اُتر ا۔۔۔ اورپھر ان دونو ں نے منظور کو پکڑکر قابو کیا اور اسے مار مار کر بے د م کر دیا۔۔۔پھرانہوں نے سب انسپکٹر تنویر کو فون کیا تو وہ وہاں آئے اور پھر منظو ر کو سب انسپکٹر صاحب کے حوالے کر دیا گیا‘‘ ڈرائیور کاشف نے ساری روداد سنا دی۔
یعنی کہ اس وقت شہباز صاحب کے بچے بھی وہاں تھے ۔۔۔ بہرحال ان کابیان لینے کیلئے ہم انہیں بعد میں کٹہرے میں بلائیں گے۔۔۔ پہلے میں ڈرائیور کاشف کی بیان کی تصدیق کے لئے سب انسپکٹر تنویر کو کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہتاہوں‘‘جیسوال نے جج صاحب کی طرف اجاز ت طلب نظروں سے دیکھا۔
اجازت ہے ‘‘جج صاحب نے سر ہلا کر کہا۔ سب انسپکٹر تنویر کے کٹہرے میں آئے تو جیسوال نے ان سے سوالات شروع کئے۔
کیا ڈرائیور کاشف کا بیان درست ہے‘‘ جیسوال نے مختصر لفظوں میں سوال کیا۔
جی ہاں۔۔۔شاید ایسا ہی ہوکیونکہ میں جب وہاں پہنچا تو منظور بے ہوش پڑا ہوا تھا ۔۔۔ ایل ایل بی شہباز احمد کے بچے وہاں کھڑے تھے اور میرا انتظا ر کر رہے تھے۔۔۔ جب میں نے منظور کے بارے میں ان سے پوچھا تو اسی وقت ان کے گھر سے فون آگیا۔۔۔وہ بناکچھ کہے ایک ٹیکسی میں بیٹھے اور وہاں سے روانہ ہوگئے۔۔۔ جب میں نے جاتے جاتے ان سے دوبارہ منظور کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جو بیان ڈرائیور کاشف کا ہے وہی بیان ہمارا ہے ‘‘ یہاں تک کہہ کر سب انسپکٹر تنویر خاموش ہوگیا۔
اس کا مطلب ہے جو بیان ڈرائیور کاشف نے دیا ہے وہی بیان شہباز صاحب کے بچوں کا بھی ہے ۔۔۔ یعنی انہوں نے بھی منظور کو دھماکے کے وقت بدحواسی کے عالم میں بھاگتے ہوئے دیکھا تھااور پھر اس کا پیچھا کر کے اسے بے ہوش کر دیا تھا۔۔۔کیوں شہباز صاحب ۔۔۔ کیا میں صحیح ہوں یا میں صحیح ہوں‘‘ایم اے جیسوال نے مسکرا کر شہباز احمد کی طرف دیکھا۔
نہیں !۔۔۔ میراخیال ہے عدالت ان کا بیان لازمی سننا پسند کرئے گی۔۔۔ میں جج صاحب سے انہیں ایک ایک کر کے کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہتا ہوں‘‘یہ کہتے ہوئے شہباز احمد جج صاحب کی طرف مڑے۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ اجازت ہے‘‘ جج صاحب نے ہامی بھرلی۔ عرفان اپنی کرسی سے اُٹھا اور کٹہرے میں آکھڑا ہوا۔ جب اس سے قسم لی گئی تو وہ پریشان ہو کر شہبا زاحمد کی طرف دیکھنے لگا لیکن ایل ایل بی شہباز احمد نے اپنا منہ پھیر لیا۔پھر آگے بڑھ کر بولے:۔
ہاں عرفان ۔۔۔بتاؤ ۔۔۔ کیا تم نے بھی منظور کو بھاگتے ہوئے دیکھا تھا‘‘ شہباز احمد نے نرم لہجے میں کہا لیکن اندر سے وہ کافی غضب ناک دکھائی دے رہے تھے۔ عرفان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے۔ پھر اس کی زبان نے حرکت کرنا شروع کیا:۔
ہم نے کل منظور کومعمول کے مطابق سست رفتار کے ساتھ جیسوال صاحب کے گھر کے پاس سے گزرتے ہوئے دیکھا تھا۔۔۔ہمیں غلط فہمی ہوگئی کہ وہ اس گھر میں دھماکا کرکے بھاگ رہا ہے۔۔۔ لہٰذاہم نے اسے زخمی کر دیا ۔۔۔ وہ بے چارہ کر اپنی بے گناہی کے لئے چلاتا رہارہا لیکن ہم نے اسے مار مار کر بے ہوش کر دیا اور پھر سب انسپکٹر تنویر کے حوالے کر دیا۔۔۔ٹیکسی ڈرائیور جھوٹ بول رہے ہیں‘‘ عرفان نے وہی الفاظ دھرا دئیے جو ایل ایل بی شہبا ز احمد نے اسے بولنے کا کہے تھے۔جیسوال حیران ہو کر اسے دیکھنے لگا۔پھر سلطان عدنان اور عمران کو بھی بلایا گیا۔ انہوں نے بھی وہی الفاظ دھرا دئیے ۔ اب تو جیسوا ل کاحیرت کے مارے برا حال ہو گیا۔ اسے یقین تھا کہ شہباز احمد کے بچے کسی بھی حالت میں جھوٹ نہیں بولیں گے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ شہباز احمد نے اپنے بچوں کو ہمیشہ سچ بولنے کی تربیت دی ہے لیکن آج ان کے بچے بھی جھوٹی گواہی دے رہے تھے۔تبھی اسے ایک زبردست جھٹکا لگا۔ اسے عدالت میں آتے ہوئے شہباز احمد کی وہی بات یاد آگئی کہ آج سچائی ہار جائے گی۔ جیسوال کا چہرہ پسینے سے بھر گیا دوسری طرف ایل ایل بی شہباز احمد بھی سچ کے راستے کو چھوڑ کر بے چینی سے پہلو بدل رہے تھے۔
٭٭٭٭٭
باقی آئندہ٭٭٭٭٭
Bookmarks