مجرم کا کیسمصنف :- شاہد بھائی
قسط نمبر:-4
عرفان برادرز ٹیکسی میں بیٹھے اپنے گھر کی طرف اُڑے جارہے تھے۔ان سب کی آنکھوں میں پریشانی کی لہر یں موجھیں مار رہی تھیں۔اپنے اباجان کے اچانک غائب ہوجانے کی خبر نے ان کے ہوش اُڑا کر رکھ دئیے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ ان کے اباجان تو دفتر میں ہی تھے پھر اچانک وہ کہاں چلے گئے؟پھر ان کا فون کیوں بند آرہا ہے؟سوال ہی سوال ان کے ذہنوں میں گونج رہے تھے ۔ ان کی سب کی زبانیں بالکل خاموش تھیں۔ آج سلطان کی بھی زبان بند ہو گئی تھی۔ وہ بھی کافی فکر مند دکھائی دے رہا تھا۔آخر ان کی ٹیکسی گھر کے سامنے آکر رک گئی۔ وہ سب ٹیکسی سے نیچے اُتر آئے ۔ کرایہ ادا کر کے ٹیکسی کو چلتا کیا اور گھر کے بالکل ساتھ ہی بنے دفتر کی طرف بڑھے۔دوسرے ہی لمحے ان کی آنکھیں حیرت و خوف سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ان کے اباجان دفتر کے دروازے کی سیڑھیوں پر بے ہوش پڑے تھے۔وہ فوراً ایل ایل بی شہباز احمد کی طرف بڑھے۔ انہیں ہلایا۔ گال پر تھپکی دی۔ ان کی سانسوں کی آمدورفت چیک کی۔ آخر سلطان دفتر کے اندر گیا اور پانی کی بوتل اُٹھا لایا۔ پانی کے چھینٹے مارنے پر شہباز احمد نے آنکھیں کھول دیں۔وہ حیران ہو کر انہیں دیکھنے لگے۔
میں یہاں کیسے آگیا ۔ شہباز احمد کی آنکھوں میں زمانے بھر کی حیرت تھی۔
یہ سوال تو ہم بھی آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں اباجان ۔ عرفان نے جلدی سے کہا۔
میں آخری وقت کہاں تھا۔۔۔ میں ۔۔۔ اوہ!!! ۔ ایل ایل بی شہباز احمد چونک اُٹھے۔ انہیں یاد آگیا کہ آخری وقت وہ ایک ہال میں پڑے ایک اجنبی آواز سے باتیں کر رہے تھے جو انہیں جیسوال کے گھر بم دھماکے کے مجرم منظور کا کیس لڑنے پر مجبور کر رہی تھی۔ ان کے سامنے سادیہ بھی بے ہوش اُلٹی لٹکی ہوئی تھی۔یہ سب سوچ کر ایل ایل بی شہباز احمدکا چہرہ سفید پڑتا لگا۔ وہ خوف کے عالم میں اپنی ہی پسینے میں غوطے کھانے لگا۔ ان کے بچے ان کی ایسی حالت دیکھ کر حیران رہ گئے:۔
اباجان ضرور چکر کھا کر بے ہوش ہوگئے ہونگے۔۔۔ان کی حالت بہت خراب نظر آرہی ہے ۔۔۔ جلدی سے انہیں ہسپتال لے چلتے ہیں ۔ عدنان نے تجویز پیش کی۔
میرا خیال ہے انہیں اپنے کمرے میں بستر پر لٹاکر ڈاکٹر کو گھر بلا لیتے ہیں۔۔۔ یہ زیادہ مناسب رہے گا ۔ عرفان نے مشورہ دیا جس پر سب نے سر ہلا دیا۔ پھر عرفان اور سلطان نے ایل ایل بی شہباز احمد کے ہاتھ اپنے کندھوں پر رکھے اور انہیں اُٹھا کر اپنے کندھے کے سہارے گھر کے اندر لے گئے۔دوسری طرف عدنان اور عمران ڈاکٹر کو لینے ہسپتال چلے گئے ۔جب ڈاکٹر آیا تو شہباز احمد کی حالت کافی بہتر ہو چکی تھی البتہ خوف اب بھی ان کے چہرے سے جھلک رہا تھا۔ ڈاکٹر نے آکر ان کی نبض چیک کی ۔ آنکھیں کے پپوٹے ہلائے پھر دل کی دھڑکن چیک کرنے کے بعد ان سب کی طرف مڑا:۔
انہیں نے بہت زیادہ ذہنی دباؤ لے لیا ہے۔۔۔ کوئی ایسی بات ہوئی ہے جس نے انہیں اندر تک ہلا کر رکھ دیا ہے ۔۔۔ بہرحال میں کچھ دوا ئیاں دے رہا ہوں۔۔۔ اور نیند کا انجکشن بھی لگا دیتا ہوں ۔۔۔امید ہے یہ کل صبح تک بالکل ٹھیک ہو جائیں گے ۔ ڈاکٹر نے یہ کہتے ہوئے پرچی میں کچھ دوائیاں لکھ دیں۔ عرفان نے اشارہ کیا تو عدنان اور عمران میڈیکل اسٹور سے دوائیاں لینے چلے گئے۔ پھر ڈاکٹر نے ایک انجکشن تیار کیا اور شہبازاحمد کے ہاتھ پر انجکشن لگا دیا۔پانچ منٹ کے اندر ہی انہیں گنودگی آئی اور پھر وہ بے خبر نیند کے مزے لینے لگے۔ عرفان اور سلطان ڈاکٹر کو باہر تک چھوڑنے آئے ۔ ڈاکٹر جب جانے لگا تو سلطان بولے بغیر نہ رہ سکا:۔
لیکن ڈاکٹر صاحب ۔۔۔ ہم نے تو اباجان کو ایسی کوئی بات نہیں کہی جس سے ان کی حالت اس حد تک کشیدہ ہو جاتی ۔ سلطان نے الجھن کے عالم میں کہا۔
بعض اوقات مریض کے ذہن میں کچھ پرانی یادیں بھی آجاتی ہیں جس سے وہ یک دم پریشان ہو جاتا ہے ۔۔۔ اس کاخون کا دورانیہ کم ہو جاتا ہے جس وجہ سے وہ بے ہوش ہو جاتا ہے ۔۔۔ شاید آپ کے اباجان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہو ۔ ڈاکٹر نے وضاحت کی جس پر سلطان اور عمران نے سر ہلا دیا۔ ڈاکٹر کو چھوڑ کر آنے کے بعد جب وہ واپس کمرے میں آئے تو ان کے اباجان بالکل بے خبر سو رہے تھے ۔ ان کے بالکل ساتھ ہی کرسی پر بیٹھی بیگم شہباز اپنے شوہر کو فکرمندی کے عالم میں دیکھ رہی تھیں۔
امی اب آپ فکر نہ کریں۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا ہے معمولی سی بات ہے ۔۔۔ اباجان کل صبح تک بالکل ٹھیک ہو جائیں گے ۔ عرفان نے دلاسا دیتے ہوئے کہا۔
پتا نہیں انہیں اچانک کیا ہوگیا۔۔۔ ابھی دوپہر کو تو بالکل آرام سے اپنے دفتر میں بیٹھے فائلوں کا مطالعہ کررہے تھے ۔۔۔ پھر یہ اچانک غائب ہوگئے اور پھر تم لوگوں کو دفتر کی سیڑھیوں پر بے ہوش ملے۔۔۔ آخر یہ کہاں گئے تھے اور یک دم انہیں چکر کیسے آگیا ۔ بیگم شہباز اب بھی پریشان تھیں۔
ڈاکٹر نے کہا ہے کہ کبھی کبھی کچھ پرانی یادیں بھی ذہن کو پریشان کر دیتی ہیں ۔۔۔ اور دوسری بات آج کل گرمی بھی بہت ہے اس لئے گرمی کی وجہ سے بھی ایسا ہوسکتا ہے ۔۔۔ اباجان کہاں گئے تھے اس کا جواب تو فلحال ہمارے پاس بھی نہیں ۔۔۔بہرحا ل جو بھی ہو ۔۔۔ اس وقت فکر کی کوئی بات نہیں ۔ سلطان نے مسکرا کر کہا۔ تبھی عمران اور عدنان میڈیکل اسٹور سے دوائیاں بھی لے آئے ۔ دوائیاں ایل ایل بی شہباز احمد کے بستر کے ساتھ پڑی میز پر رکھ دی گئیں اور پھر وہ سب ان کے آرام میں خلل نہ پڑے اس غرض سے کمرے سے باہر آگئے ۔ آج کا یہ پورا دن یونہی گزر گیا تھا۔ ان کی بہن کا بھی انہیں کوئی سراغ نہیں ملا تھا اور اب آتے ہی انہیں اپنے اباجان بے ہوشی کے عالم میں ملے تھے۔پورے دن سے اب جا کر انہیں کچھ سوچنے کی فرصت ملی تھی۔
سمجھ نہیں آرہی کہ یہ اچانک اس قدرہنگامے کیسے شروع ہوگئے ۔۔۔ پہلے سادیہ کا اپنی سہیلی کے گھر جانا لیکن راستے میں ہی غائب ہو جانا۔۔۔پھر ایم اے جیسوال کے گھر دھماکا۔۔۔اور پھر منظور کا وہاں موجود ہونا۔۔۔اب اب اباجان کا اچانک غائب ہو جانا اور پھر بے ہوش حالت میں ہمیں دفتر کی سیڑھیوں پر ملنا۔۔۔ ان سب واقعات کے درمیان کوئی نہ کوئی ربط تو ضرور ہے اور یہ ربط ہی ہمیں معلوم کرنا ہے ۔ عدنان بولتا چلا گیا۔
اس ربط کو معلوم کرنے کے لئے اپنے اندر تھوڑا ضبط بھرنا ہوگا اور ہمیں کل صبح تک کا انتظار کر ناہوگا۔۔۔ اب جو ہوگا وہ کل ہی ہوگا ۔ سلطان نے مسکرا کرکہا۔
اس قدر اہم معلومات دینے کے لئے بہت بہت شکریہ ۔ عرفان نے جل کر کہا۔
شکر یہ کہہ کر شرمندہ مت کیجئے ۔ سلطان شوخ لہجے میں بولا جس پر وہ سب اسے کھاجانے والی نظروں سے دیکھنے لگے۔
میرا خیال ہے دھماکے کی خبر ٹی وی پر آ رہی ہوگی۔۔۔ شاید وہاں سے کچھ اہم معلومات مل جائیں جو ہمارے کام آ سکیں ۔ عمران نے تجویز پیش کی جس پر سب نے سر ہلا دیا۔ پھر سلطان اُٹھا اور اس نے ٹی وی کھول کر نیوز چینل لگایا۔ دوسرے ہی لمحے وہ سب چونک اُٹھے۔نیوز چینل کے کیمرے اور اینکر اس وقت ایم اے جیسوال کے پاس سٹی ہسپتال کے کمرے میں کھڑے تھے اور اس کا انٹرویو لیا جا رہا تھا۔ان سب کی نظریں ٹی وی سکرین پر جم کر رہی گئیں۔
آپ جیسے مشہور وکیل کے گھر دھماکا کیسا ہوگیا۔۔۔ آپ کوکیا لگتا ہے ۔۔۔ کس نے یہ دھماکا کروایا ہے ۔ نیوز اینکر نے سوال کیا۔
میرے کسی دشمن کی یہ حرکت ہو سکتی ہے ۔۔۔ بہرحال میں نے تو وہاں ایل ایل بی شہباز احمد کے اسسٹنٹ منظور کو بھاگتے ہوئے دیکھا ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ یہ حرکت انہیں کی ہو ۔جیسوال نے ہچکچاہٹ سے کہا۔
لیکن ایل ایل بی شہباز احمد آپ کے گھر دھماکا کیوں کروائیں گے۔۔۔ انہیں آپ سے کیا دشمنی ہوسکتی ہے ۔ نیوز اینکر حیران ہو کربولا۔
میرے پاس کوئی وجہ نہیں ہے اس لئے میں اب تک پورے یقین سے یہ بات نہیں کہہ سکتا کہ شہباز صاحب ہی اس دھماکے کے پیچھے ہیں۔۔۔ البتہ ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کے اسسٹنٹ کو میں نے دھماکے سے عین دو منٹ پہلے اپنے گھر کی دیوار پھلانگ کر بھاگتے ہوئے دیکھا ہے ۔۔۔ اس لئے اس دھماکے میں ان کے اسسٹنٹ کا تو ضرور ہاتھ ہے ۔ جیسوال نے پر یقین لہجے میں کہا۔
کیا آپ عدالت میں شہباز احمد کے اسسٹنٹ کے خلاف کیس دائر کریں گے ۔ اینکر نے تجسس سے کہا۔
جی ہاں ۔۔۔ بالکل ۔۔۔ بلکہ میں نے تو اپنے اسسٹنٹ کے ذریعے کیس دائر کر بھی دیا ہے ۔۔۔دھماکے سے دو منٹ پہلے اُسے بھاگتے ہوئے نہ صرف میں نے بلکہ ایک ٹیکسی کے ڈرائیور نے اور خود ایل ایل بی شہباز احمد کے بچوں نے بھی دیکھا ہے ۔۔۔ اس لئے میرامقدمہ عدالت میں بہت مضبوط ہے اور جو بھی وکیل میرے خلاف ہوگا اسے میں پانچ منٹ میں شکست دے دوں گا ۔ جیسوال نے مسکرا کرکہا۔
ہمارے ساتھ بات کرنے کا بہت بہت شکریہ۔۔۔اور ناظرین اب ہم ایک چھوٹے سے وقفے کے بعد ملتے ہیں ۔ نیوز اینکر نے جیسوال سے گرم جوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا اورپھر اشتہار بازی شروع ہوگئی ۔ عرفان برادرز نے ٹی وی بند کر دیا اور سوچ میں پڑ گئے کہ منظور نے یہ حرکت کیوں کی ہوگی؟پھر سادیہ کو کس نے اغوا کیا ہے اور کیا اس کے اغوا کا اس کیس سے کوئی تعلق ہے ؟اور پھر ایل ایل بی شہباز احمد کی حالت اس قدر خراب کیوں ہوگئی ہے اور وہ اچانک کہاں غائب ہو گئے تھے؟یہ سب سوال ان کے ذہنوں میں کھلبلی مچانے لگے اور انہیں اپنے دماغ پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔
٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out

Reply With Quote
Bookmarks