مجرم کا کیسمصنف :- شاہد بھائی
قسط نمبر:- 3
عرفان برادرز ٹیکسی میں جیسوال کے گھر کے باہرکھڑے تھے۔ایک طرف انہیں جیسوال اپنی گاڑی میں زخمی حالت میں نظر آ رہا تھا تو دوسری طرف گھر کے اندر شعلے اُٹھتے ہوئے نظر آرہے تھے ۔تیسری طرف انہیں گھر سے کچھ فاصلے پر اپنے اباجان کا اسسٹنٹ منظور بھاگتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔تبھی ٹیکسی سے عرفان نے چھلانگ لگا دی۔ دوسرے ابھی اپنے حواس کو جمع کرنے میں لگے ہوئے تھے لیکن یہاں عرفان ٹیکسی سے چھلانگ لگا کر منظور کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ منظور نے اپنے پیچھے قدموں کی آواز سنی تو مڑ کر دیکھا ۔دوسرے ہی لمحے وہ چونک اُٹھا۔ عرفان کو اپنے پیچھے آتے دیکھ اس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔چہرہ سفید پڑنے لگا۔ اس نے اپنی رفتار بڑھا دی لیکن عرفان بھی اپنی رفتار کم کرنے کو تیار نہیں تھا۔ دونوں کے بیچ فاصلہ جوں کے توں باقی تھا۔ نہ ہی عرفان اُس کے اور اپنے درمیان فاصلہ کم کر پارہا تھا اور نہ ہی منظور فاصلہ بڑھا پا رہاتھا۔یہاں یہ منظر تھاتو وہاں ٹیکسی سے سلطان بھی باہر نکل آیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی عدنان اور عمران بھی باہر نکل آئے ۔ سلطان نے جب دیکھا کہ عرفان اور منظور کے درمیان کسی طرح بھی فاصلہ کم یا زیادہ نہیں ہو رہا تو اس نے زمین سے ایک پتھر اُٹھایا۔ پتھراُٹھانے کے بعد وہ اپنی بھرپور قوت سے منظور کے پیچھے بھاگنے لگا۔ عدنان عمران اور ٹیکسی ڈرائیور یہ منظر حیران ہو کر دیکھ رہے تھے ۔ سلطان کافی دیر تک منظور کے پیچھے بھاگتا رہا اور پھر اچانک اس نے پوری قوت سے پتھرعرفان کے سر کے اوپرسے منظور کی طرف پھینک دیا۔ پتھر عرفان کے سر کے اوپر سے ہوتا ہوا منظور کے ٹھیک سرکے درمیان میں لگا۔اس کے منہ سے درد کے مارے آہ نکل گئی۔ اس کی رفتار بھی درد کی وجہ سے کم ہوگئی۔ عرفان کے لئے یہ موقع کافی تھا۔ وہ اپنی رفتار پہلے سے زیادہ تیز کرتے ہوئے منظور کے سر پر پہنچ گیا۔دوسرے ہی لمحے عرفان نے ایک بھرپور ہاتھ اس کی گردن پر لگایا۔ وہ کٹے ہوئے درخت کی طرح زمین پر گرااور پھر عرفان نے اسے ٹھوکروں پر رکھ لیا ۔ آخر منظور بے دم ہو گیا۔تبھی سلطان بھی عرفان کے پاس پہنچ گیا۔
اب یہ کارنامہ کس کے سر رہا ۔ سلطان نے اپنا کولر ٹھیک کرتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
اپنے ہی سر رکھو۔ عرفان جھلا کر بولا۔
کیوں !۔۔۔ تمہارا سر کارنامہ برداشت کرنے کے قابل نہیں ۔ سلطان شوخ لہجے میں بولا۔
اب تم سے کون مغز مارے ۔ عرفان جل گیا۔
اگر مغز ہو گا تو مجھے مارو گے نہ ۔ سلطان نے چہک کر کہا۔ تبھی عدنان اور عمران بھی وہاں پہنچ گئے ۔ منظور کو دیکھ کر سب حیرت زدہ تھے۔
سمجھ نہیں آرہی کہ یہ یہاں جیسوال کے گھر کے باہر کیا کر رہا ہے ۔۔۔ اسے تو اباجان نے کسی کیس کی فائل لانے کے لئے سب انسپکٹر تنویر کے پولیس تھانے بھیجا تھا۔ عدنان حیران ہو کر بولا۔
شاید یہ منظور ہی اس دھماکے کے پیچھے ہو ۔ عمران نے سوچ کر کہا۔
ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔۔۔ فلحال تو ایمبولنس کو اور فائر بریگیڈکو فون کرنا ہے ۔۔۔ اور سب انسپکٹر تنویر کو بھی۔۔۔ تاکہ وہ یہاں موقع پر پہنچ کر ثبوت و شہادتیں اکٹھی کرلیں۔عرفان نے کہا اور موبائل فون نکال کر پہلے ایمبولنس کوپھر فائر بریگیڈ کو اور پھر سب انسپکٹر کو فون کرنے لگا۔سب سے پہلے ایمبولنس اور فائر بریگیڈ وہاں پہنچ گئے۔فائر بریگیڈوالے آگ بجھانے میں لگ گئے۔ عرفان اور دوسرے تماشائیوں کی طرح یہ منظر دیکھ رہے تھے۔یہاں ایمبولنس والوں نے جیسوال کے زخمی جسم کو اُس کی گاڑی سے باہر نکالا اور پھر اسے ایمبولنس میں ڈال کر سٹی ہسپتال کی طرف روانہ ہوگئے۔ ۔ دوسری طرف منظور اس وقت مکمل طور پر بے ہوش تھا۔ سلطان کا پتھر اسے ٹھیک سر پر جا کرلگا تھا اور پھر عرفان کی ٹھوکریں نے اس کے رہے سہے کس بل بھی نکال دئیے تھے۔تبھی فائر بریگیڈ والوں نے مکمل طور پر آگ پر قابو پا لیا اور پھر وہ اندر ملبے میں دبے افراد کو نکالنے لگے۔ سب سے پہلے ان وکیلوں کی لاشیں برآمد ہوئیں جنہیں ایم اے جیسوال نے اپنے بھائی کی سالگرہ کی پارٹی میں بلایا تھا۔ پھر جیسوال کے ماں باپ کی لاشیں برآمدہوئیں۔اس کے باپ پورب کمار کی آنکھوں میں زندگی کے لئے حسرت صاف دیکھی جاسکتی تھی ۔ جیسوال کی ماں کی لاش تو مکمل طور پر جل گئی تھی۔ جسم کا کوئی بھی حصہ صحیح سلامت نہیں بچا تھا۔ گلے میں موجود ہار سے یہ شناخت ہوپائی تھی کہ یہ لاش جیسوال کی ماں کی ہے۔ایک اور مکمل طور پر جھلسی ہوئی لاش بھی برآمدہوئی تھی ۔ کپڑوں سے اندازہ لگانے پر یہ شناخت ہوئی تھی کہ یہ لاش ضرور ایم اے جیسوال کے بھائی آکاش کی ہوگی۔پھر کافی دیر تک فائر بریگیڈ ٹیم اپنے کام میں سرگرم رہی لیکن کوئی اور لاش برآمد نہ ہوئی۔ کوئی زخمی شخص بھی انہیں نہ ملا۔جب تمام لاشوں کو ایمبولنس میں سرد خانے لے جانے کا انتظام ہوگیا تب سب انسپکٹر تنویر بھی وہاں پہنچ گیا۔ عرفان برادرز سے وہ کافی گرم جوشی سے ملا:۔
تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو ۔۔۔ اور یہ دھماکا کیسے ہوا۔ سب انسپکٹر تنویز نے تفتیش کرتے ہوئے کہا۔
ہم تو اپنی بہن سادیہ کی تلاش میں تھے ۔۔۔ جب ہم ٹیکسی میں اس گھر کے پاس سے گزرے تو ایک زور دار دھماکا ہوا ۔۔۔ ہم ابھی اس گھر سے دور تھا ۔۔۔اس لئے دھماکے سے ہماری ٹیکسی متاثر نہ ہوئی۔۔۔ ہم نیچے اتر آئے اور فائر بریگیڈ ، ایمبولنس اور آپ کو فون کر دیا۔۔۔ویسے آپ نے یہاں آنے میں کافی دیر کردی۔سلطان نے آخر میں مسکرا کر کہا۔
تم تو جانتے ہی ہو ۔۔۔ہمیں بہت سے دوسرے کام بھی ہوتے ہیں۔۔۔ اچھا خیر ۔۔۔ یہ شخص کون ہے جو زخمی پڑا ہے ۔ سب انسپکٹر تنویر نے منظور کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
یہ منظور۔۔۔۔ ابھی عرفان نے اتنا ہی کہاتھا کہ اس کے موبائل فون کی گھنٹی بج اُٹھی۔ اس نے جلدی سے کال ریسیوکی تو ان کی امی کی روتی ہوئی آواز سنائی دی:۔
عرفان بیٹا۔۔۔ جلدی گھر پہنچو۔۔۔ تمہارے ابو نہ جانے کہاں چلے گئے ہیں۔۔۔اُن کا فون بھی بند آرہا ہے۔ بیگم شہباز روتے ہوئے بولیں۔
اوہ !۔۔۔ اباجان تو دفتر میں ہی تھے ۔۔۔ خیر آپ فکر نہ کریں امی ۔۔۔ ہم بس آرہے ہیں ۔عرفان نے کہا اور فون رکھ کر جلدی سے سامنے سے آتی ایک ٹیکسی روکی۔ دوسرے ہی لمحے وہ اس میں سوار ہوگیا۔ اس کے دیکھا دیکھی عدنان عمران اور سلطان نے بھی ٹیکسی میں بیٹھنے میں دیر نہ لگائی۔دوسرے ہی لمحے ٹیکسی چل پڑی۔
لیکن یہ شخص کون ہے ۔۔۔ یہ تو بتاؤ۔ سب انسپکٹر تنویر چلا اُٹھا۔آپ اپنے ساتھ کھڑے ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھ لیں۔۔۔ یہ حضرت ہی ہمیں یہاں تک لے کر آئیں ہیں اور جو کچھ ہم نے دیکھا وہ سارا کچھ انہوں نے بھی دیکھا ہے ۔۔۔ اس لئے ان کا بیان ہی ہمارا بیان ہے ۔ سلطان نے ٹیکسی کی کھڑکی میں سے سر نکال کر بلند آواز میں کہااور پھر وہ لمحہ بہ لمحہ سب انسپکٹر تنویر اور اس ٹیکسی ڈرائیور کی نظروں سے دور ہوتے چلے گئے اور آخر ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔
امی جان نے فون پر کیا کہا۔ سلطان نے بے چینی سے پوچھا۔
اباجان اچانک کہیں چلے گئے ہیں۔۔۔پتا نہیں کہاں۔۔۔ امی جان فون پر بہت رو رہی تھیں۔ عرفان نے فکر مندی سے کہا۔یہ سن کر ان سب کے چہروں پر بھی فکر کے بادل چھا گئے ۔ اب وہ سادیہ کو بھول کر جلد از جلد اپنے اباجان کی تلاش میں نکلنے کا سوچ رہے تھے۔
٭٭٭٭٭ایل ایل بی شہباز احمد اپنے آپ بالکل بے بس محسوس کررہے تھے ۔ ایک طرف ان کی بیٹی کی زندگی تھی تو دوسری طرف ان کے اصول وفرائض جن پر انہوں نے زندگی میں کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔آخر کافی دیر تک بھی وہ کچھ نہ بولے تو آواز ان سے ایک بار پھر مخاطب ہوئی:۔
ہم آپ کو زیادہ وقت نہیں دے سکتے۔۔۔ آپ کے پانچ صرف تین سیکنڈ کا وقت ہے ۔۔۔ یہ تین سیکنڈ آپ کو فیصلہ کرنے کے لئے دئیے جارہے ہیں۔۔۔ اگر آپ نے ان تین سیکنڈوں میں بھی کوئی فیصلہ نہ کیا تو پھر ہم آپ کی بیٹی کی زندگی کا فیصلہ کر دیں گے۔ آواز یک لخت سخت ہوگئی۔ایل ایل بی شہباز احمد کے ماتھے سے پسینے کے قطرے بہنے لگے۔ دوسری طرف وہ آواز تین تک گنتی گننے لگی ۔
ایک ۔۔۔ ۔۔۔دو۔۔۔ ۔۔۔ اور اب آخری۔ ابھی اس نے اتناہی کہا تھا کہ شہباز احمد چلا اُٹھے۔
رک جاؤ۔۔۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے ۔۔۔ میں تمہارے لئے کیس لڑنے کو تیارہوں ۔ ایل ایل شہباز احمد کی آواز لرزرہی تھی۔
یہ ہوئی نہ بات ۔۔۔ آپ کی اس بات نے ہمیں خوش کر دیا ہے ۔۔۔ اب کیس کی تفصیل میں آپ کو سناتا ہوں۔۔۔غور سے سنتے جائیے اور اپنے دماغ میں محفوظ کرتے جائیے۔۔۔آج دوپہر تین بجے مشہور وکیل اور آپ کا پکا مخالف دشمن ایم اے جیسوال کے گھر ایک دھماکا ہوا۔۔۔ اس وقت اس کے گھر میں کئی مشہور ومعروف وکیل موجود تھے ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ اس کے ماں باپ اور اس کا چھوٹا بھائی آکاش بھی اس وقت گھر میں موجود تھے۔۔۔ان کے ساتھ کیا ہوا یہ ہمیں فلحال نہیں معلوم۔۔۔اور نہ ہی ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ جو شخص بم رکھ کر وہاں سے نکلا وہ کسی بھی صورت جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے سے بچ جائے ۔۔۔ اور وہ شخص کوئی اور نہیں بلکہ آپ کا اسسٹنٹ منظور ہے ۔۔۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ اپنے اسسٹنٹ کا کیس لڑیں اور اسے رہا کرا لیں کیونکہ ہمیں خبر ملی ہے کہ پولیس نے اسے موقع واردات سے گرفتا ر کر لیا ہے ۔۔۔اب اسے بچانا آپ کاکام ہے ۔یہاں تک کہہ کر وہ آواز خاموش ہوگئی۔
میرا سسٹنٹ ایک مجرم ہے ۔۔۔ اس نے جیسوال صاحب کے گھر بم دھماکا کیا۔۔۔ لیکن میں نے تو اسے ایک کیس کی فائل لانے سب انسپکٹر تنویر کے پاس تھانے بھیجا تھا ۔ شہباز احمد حیرانگی کے عالم میں بڑبڑائے۔
یہ سب چھوڑیے ۔۔۔ اگر آپ نے یہ کیس نہ لڑا اور اسے رہائی نہ دلائی تو آپ کی بیٹی کے ساتھ کیا ہوگا یہ تو آپ اچھی طرح جانتے ہی ہیں ۔ اب آواز میں سفاکی چھاگئی تھی۔ ایل ایل بی شہباز احمد اس آواز کو سن کر کانپ اُٹھے۔ ان کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔ ایک طرف انہیں اپنی بیٹی کی زندگی بچانی تھی تو دوسری طرف اس گناہ گار مجرم منظور کو اس کے جرم کی سزا بھی دلوانی تھی لیکن یہ دونوں کام وہ ایک ساتھ کسی صورت نہیں کر سکتے تھے۔ ان دو کاموں میں سے انہیں کسی ایک کام کا انتخاب کرنا تھا۔یا تو وہ اپنی بیٹی کی زندگی بچا لیں اور ایک گناہ گار مجرم کو رہائی دلا دیں یا پھر اس مجرم کو سزا دلوائیں جس نے معصوم جانوں کو دھماکے کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتارا تھا اور اپنی بیٹی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھو دیں۔ ایل ایل بی شہباز احمد کے ماتھے کی شکنیں گہری ہوتی جارہی تھیں اور وہ خود کو زندگی اور موت کی کشمکش میں محسوس کر رہے تھے۔
٭٭٭٭٭
باقی آئندہ٭٭٭٭٭



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out

Reply With Quote
Bookmarks