مجرم کا کیس
مصنف:- شاہد بھائی
قسط نمبر-6

جیسوال کی آنکھوں میں زمانے بھر کی حیرت تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایل ایل بی شہباز احمدکے بچوں نے عدالت میں اس کے خلاف جھوٹی گواہی دے دی ہے۔ دوسری جگہ ایل ایل بی شہباز احمد بھی کچھ پریشان نظر آرہے تھے لیکن پھر انہوں نے اپنے چہرے کو سنبھالتے ہوئے اُس پر طنزیہ مسکراہٹ طاری کرلی:۔
اب آپ کیا کہیں گے جیسوال صاحب ‘‘ شہباز احمد مسکر اکر بولے۔
مم۔۔۔ میں ٹیکسی ڈرائیور کاشف کو دوبارہ کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہتا ہوں‘‘ جیسوال نے اہل ایل بی شہباز احمد کی بات کا جواب دینے کی بجائے حواس بحال کرتے ہوئے جج صاحب سے کہا۔
اجازت ہے ‘‘ جج صاحب نے باآواز بلند کہا۔دوسرے ہی لمحے ٹیکسی ڈرائیو ر کاشف حیرت کا بت بنے کٹہرے میں آیا۔
کیا شہباز صاحب کے بچوں کا بیان درست ہے ۔۔۔ اور اگر ان کا بیان درست ہے تو پھر آپ نے جھوٹ کیوں بولا‘‘ جیسوال نے تھکے تھکے انداز میں سوا ل کیا۔
میں بالکل سچ بول رہا ہوں ۔۔۔ نہ جانے کیوں ایل ایل بی شہباز احمد کے بچے جھوٹ بول رہے ہیں ۔۔۔ وہاں پر ہم نے منظور کو صاف طور پر گھر کے پاس بدحواسی کے عالم میں بھاگتے ہوئے دیکھے تھا۔۔۔ میں بھلا اس سلسلے میں کیا کہہ سکتاہوں کہ وہ جھوٹ کیوں بول رہے ہیں‘‘ ٹیکسی ڈرائیور نے بے بسی سے کہا۔
جھوٹ وہ نہیں جھوٹ آپ بو ل رہے ہیں ۔۔۔ آپ نے وہاں ایسا کچھ نہیں دیکھا۔۔۔ مان جائیے ورنہ عدالت میں جھوٹی گواہی آپ کو بہت مہنگی پڑ سکتی ہے ‘‘ شہباز احمد کٹہرے کی طرف آتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں بولے۔
ہو سکتا ہے شہباز صاحب ۔۔۔ جھوٹ آپ کے بچے بول رہے ہوں اور اس جھوٹی گواہی دینے کے لئے آ پ نے ان پر دباؤ ڈالاہو‘‘ جیسوال نے مسکرا کر کہا۔
ایسا کچھ نہیں ہے ۔۔۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔آپ کے پاس صرف ایک گواہ ہے جبکہ میرے پاس چارگواہ ہیں۔۔۔ آپ کا ایک گواہ جھوٹ بول سکتا ہے لیکن میرے چار گواہ میر ے بچے جھوٹ نہیں بو ل سکتے‘‘ شہباز احمد قدرے بوکھلا کر بولے۔
عدالت آپ کے بچوں کی گواہی بھلا کیسے مان لے ۔۔۔ آپ کے بچے تو آپ کے حق میں ہی گواہی دیں گے‘‘ جیسوال نے اعتراض کرتے ہوئے کہا۔
شاید آپ بھول رہے ہیں جیسوال صاحب کہ میرے بچے قومی شناختی کارڈرکھتے ہیں اور ان کا باقاعدہ ایک رجسٹرڈ ادارہ عرفان برادرز کے نام سے پرائیوٹ جاسوسی کے فرائض انجام دے رہا ہے ۔۔۔ اس لئے ان چاروں کی گواہی الگ الگ قانونی حیثیت رکھتی ہے ۔۔۔ اور دوسری بات کہ ٹیکسی ڈرائیو رکے بیان سے بھی صرف اتنا ہی پتاچلتا ہے کہ منظور دھماکے کے بعد وہاں سے بھاگ رہا تھا۔۔۔ لیکن گھر کی دیوار پھلانگ کر بھاگایہ بیان تو خود ڈرائیور کاشف کا بھی نہیں۔۔۔ لہٰذا آپ کا یہ گواہ ادھورا سمجھا جائے گا اور اس ادھورے گواہ پر عدالت منظور کو کوئی سزا نہیں سنا سکتی ۔۔۔ کیا آپ میری بات سے متفق ہیں جج صاحب‘‘ یہ کہتے ہوئے شہباز احمد جج صاحب کی طرف مڑے۔
شہباز صاحب کی بات درست ہے جیسوال صاحب۔۔۔ عدالت ایک ادھورے گواہ پر کسی کو مجرم قرار نہیں دے سکتی۔۔۔ دھماکے کے بعد تو بھاگنا ایک فطرتی عمل ہے ۔۔۔ کوئی شخص بھی دھماکا دیکھ کر کھڑا نہیں رہ سکتا۔۔۔ اگر آپ کے پاس کوئی اورگواہ یا ثبوت ہے تو آپ پیش کر سکتے ہیں‘‘ جج صاحب نے غیر جانب دارانہ انداز میں کہا۔
افسوس!!!۔۔۔ اس وقت میرے پاس کوئی اورثبوت یا گواہ نہیں لیکن میں عدالت سے ثبوت اور شواہد اکٹھے کرنے کے لئے کچھ وقت کی درخواست کرتا ہوں‘‘ جیسوال نے سرد آہ بھرتے ہوئے عاجزی سے کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ یہ عدالت آپ کو کل دوپہر تک کا وقت دیتی ہے ۔۔۔ اب اس کیس کو مزید آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔۔۔ اس لئے اگر آپ کل تک کوئی ثبوت یا گواہ پیش نہ کر سکے تو عدالت اپنا فیصلہ سنا دے گی۔۔۔ عدالت کل تک کے لئے ملتوی کی جاتی ہے‘‘یہ کہتے ہوئے جج صاحب نے لکڑی کی پلیٹ پر ہتھوڑا مارا اور اُٹھ کھڑے ہوئے۔ان کے عدالت سے جانے کے بعد باقی لوگ بھی اپنی کرسیوں سے اُٹھے اور باہر نکل گئے۔ شہباز احمد بھی وہاں کھڑے نہ رہ سکے ۔ اپنے بچوں سے جھوٹی گواہی دلوانے کے بعد ان میں اتنی ہمت نہ تھی کہ وہ جیسوال کی تیز آنکھوں کا سامنا کر سکتے۔ جیسوال کافی دیر تک کھویا کھویا اپنی کرسی پر بیٹھا رہا اور آخر اسے بھی کمرہ عدالت سے نکلنا ہی پڑا۔ شہبا ز احمد نے اپنے بچوں کو گاڑی میں بٹھایا اور اپنے گھر کی طرف جاتی ہوئی سڑک پر گاڑی دوڑانے لگے۔ راستے بھر وہ بالکل خاموش رہے جیسے انہیں سانپ سونگھ گیاہو۔ گھر پہنچ کر ایل ایل بی شہباز احمد نے فوراً اپنے کمرے کا رخ کیا اور عرفان برادرز نے اپنے کمرے کا!۔ بیگم شہباز شہباز احمد کے کمرے میں ان کے احوال پوچھنے چلی گئی ۔ یہاں عرفان اوردوسرے اپنے کمرے میں کھوئے کھوئے انداز میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے:۔
آج کی سنوائی سے ایک بات باکل ثابت ہو جاتی ہے کہ انکل جیسوال جھوٹ نہیں بول رہے۔۔۔ منظور اس دھماکے میں ضرور شامل ہے لیکن اگر کل بھی وہ کوئی ثبوت یا گواہ پیش نہ کر سکے تو عدالت منظور کو رہا کر دے گی‘‘ عرفان نے سوچتے ہوئے کہا۔
ان حالات میں ہمیں بھی جھوٹی گواہی دینے پر مجبور کیا گیا ۔۔۔ مجھے تو احمد ندیم قاسمی کا وہ شعر یاد آرہا ہے ۔۔۔
موت سے کس کو مفر ہے مگر انسانوں کو۔۔۔
پہلے جینے کا سلیقہ تو سکھایا جائے۔۔۔
حکم ہے کہ سچ بھی قرینے سے کہا جائے ندیم ۔۔۔
زخم کو زخم نہیں پھول بتایا جائے‘‘سلطان نے شاعرانہ مزاجی سے کہا۔

ہمیں اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا ہی ہوگا۔۔۔ میں کسی صورت نہیں ما ن سکتا کہ اباجان ہمیں جھوٹ بولنے پر مجبور کریں گے ۔۔۔ضرور کوئی اور معاملہ ہے۔۔۔ اور پھر مجھے یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ سادیہ کے اغوا والا چکر اور یہ چکر الگ الگ نہیں بلکہ کسی ایک ہی دماغ کی ساز ش ہے‘‘ عدنان نے اپنے عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے کہا۔
بے چاری امی جان تو سادیہ کے بارے میں کچھ پوچھ ہی نہ سکیں۔۔۔ پرسوں سے سادیہ غائب ہے ۔۔۔ نہ ہم اباجان سے اس موضوع پر کوئی بات کر پائے اور نہ ہی امی جان سے ۔۔۔اباجان کا سادیہ کی فکرنہ کرنااور اس کیس میں الجھ جانا ہی یہ ظاہر کر رہا ہے کہ سادیہ کے اغواوالا معاملہ بھی اس کیس سے جڑا ہواہے‘‘ عمران نے پر یقین لہجے میں کہا۔
اب ہمیں کل صبح ہر صورت سادیہ کی تلاش میں نکلنا ہوگا ۔۔۔ ویسے بھی عدالت اس کیس کے بارے میں کیا فیصلہ سنائے گی ۔۔۔ یہ بات ہم آ ج ہی جان چکے ہیں۔۔۔فیصلہ اباجان کے حق میں ہی ہوگا اور جیسوا ل کے خلاف ہوگا۔۔۔ لیکن آج پہلی بار ہمیں اباجان کی جیت کی کوئی خوشی نہیں ہوگی‘‘ عرفان نے سرد آہ بھر کر کہااور وہ سب عرفان کو حیرت بھری نظروں سے دیکھنے لگے۔اس کی آنکھوں میں گہرے غم کے آثار تھے ۔ سلطان بھی کافی پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ آج اس کی شوخ مزاجی بھی جیسے ہوا ہو گئی تھی۔ اپنی بہن کی فکر نے انہیں اندر تک ہلا کر رکھ دیا تھا اور اب دوسری طرف ایل ایل بی شہباز احمد کا اس قدر روکھا رویہ بھی ان کی رہی سہی ہمت کو ختم کر رہا تھا۔وہ مظلوم و قید پرندوں کی مانند اپنے کمرے میں بیٹھے بے بسی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔

٭٭٭٭٭
صبح ان کی آنکھ کھلی تو انہیں نے اپنے اباجان ایل ایل بی شہباز احمد کو گھر سے غائب پایا۔ وہ گھر میں موجود نہ تھے۔انہوں نے جلدی جلدی منہ ہاتھ دھو کر ناشتے کی میز کا رخ کیا۔ وہاں انہیں اپنی امی جان کی آنکھیں بالکل سرخ دکھائی دیں جیسے وہ رات بھر سوئی ہی نہ ہوں:۔
کیا ہوا امی جان ۔۔۔ آپ رات بھر سو ئی نہیں ہیں کیا ۔۔۔ اور یہ اباجان کہاں گئے ہیں‘‘عرفان نے جلدی سے پوچھا۔
پتا نہیں بیٹا۔۔۔ آج کل وہ کہاں جاتے ہیں کیا کرتے ہیں مجھے کچھ نہیں بتاتے ۔۔۔ سادیہ بھی تین دن سے غائب ہے ۔۔۔ اپنی سہیلی کے گھر جانے کے بعد وہ نہ جانے کہاں چلی گئی ہے ۔۔۔ تم لوگ اس کی تلاش میں گئے تھے ۔۔۔ آخر وہ تمہیں کیوں نہ ملی‘‘ بیگم شہباز جذباتی انداز میں بولیں۔
ہم نے بہت کوشش کی تھی امی جان لیکن افسوس !۔۔۔ وہ ہمیں کہیں نہ ملی‘‘ سلطان نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔
مجھے ہر صورت اپنی بیٹی واپس چاہیے۔۔۔ اب چاہے تم لوگوں کو زمین کھنگالنی پڑی یا آسمان تک رسائی کرنی پڑے ۔۔۔ آج تم سادیہ کو ساتھ لائے بغیر گھر واپس نہیں لوٹو گے ۔۔۔ سمجھ گئے‘‘بیگم شہباز سخت لہجے میں بولیں اور پھر ان کے آنکھوں سے آنسوؤں ٹپکنے لگے۔ عرفان اور دوسرے زیادہ دیر تک یہ منظر نہ دیکھ سکے اوربے بسی سے گھر سے باہر نکل آئے۔
امی جان کی یہ کیاحالت ہوگئی ہے ۔۔۔ میں اپنی امی جان کو اس طرح روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا‘‘ سلطان نے بھرائی ہوئی آواز سے کہا۔ تبھی وہ سب چونک اُٹھے۔ ان کے دفتر سے کسی کی باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ انہوں نے غور سے کان لگایا تووہ حیران رہ گئے۔ بات کرنے والے کوئی اور نہیں بلکہ ان کے والد شہباز احمد تھے۔ وہ دفتر کے دروازے کی طرف آئے اور جھری سے اندر کی طرف جھانکا۔ دوسرے ہی لمحے وہ دھک سے رہ گئے ۔ شہباز احمد ٹیکسی ڈرائیور کاشف کو دس دس ہزار کی کڑک نوٹوں کی گڈی ہاتھ میں تھمارہے تھے۔
آج تم میرے حق میں گواہی دو گے اور یہ کہو گے کہ تم نے کل عدالت میں جھوٹی گواہی دی تھی اور اس جھوٹی گواہی کے لئے تمہیں جیسوال صاحب نے مجبور کیا تھا ۔۔۔ سمجھ گئے‘‘ شہباز احمد ڈرائیور کاشف کو سمجھاتے ہوئے کہہ رہے تھے اور وہ مسکراکر گردن ہلا رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ ان کے پیروں سے زمین کھسک گئی تھی۔ اپنے والد کا مجرمانہ روپ وہ زندگی میں پہلی مرتبہ دیکھ رہے تھے۔

٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭