مجرم کا کیس
مصنف:۔ شاہد بھائی
قسط نمبر-1

ایم اے جیسوال کے گھر ایک زبردست پارٹی کا انتظام کیا گیا تھا۔ آج اس کے بھائی آکاش کی سالگرہ کا دن تھا۔ پوراگھر روشی سے نہایا ہوا تھا۔ جگہ جگہ گھر کو پھولوں اور غباروں سے سجا دیا گیا تھا۔ ایم اے جیسوال نے بڑے بڑے وکیلوں کو بھی آج دعوت نامہ بھیجا تھا لیکن ایل ایل بی شہباز احمد کو اس نے دعوت نامہ بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ اس لائق نہیں ہیں کہ انہیں اپنی پارٹی میں بلایا جائے ۔ غرور اور تکبر کی چھاپ اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ البتہ بڑے بڑے وکیل ضرور اس کے بھائی کے جنم دن میں شریک ہونے آگئے تھے ۔ ایم اے جیسوال کا صرف ایک ہی بھائی تھا ۔ قدرت نے اسے بہن جیسی دولت سے محروم رکھا تھا۔ یہ پورا گھرانا ہندو مذہب سے تعلق رکھتا تھا یہی وجہ تھی کہ ان کے نام جیسوال اور آکاش یعنی ہندوں جیسے نام تھے البتہ ان کا تعلق اسی ملک سے تھا ۔ ایم اے جیسوال نے کچھ سالو ں پہلے وکالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد عملی میدان میں قدم رکھ کر کیس حل کرنا شروع کئے تھے اور آج وہ قابل اور مشہوروکیلوں کی فہرست میں آتا تھا۔اس کا بھائی اس شعبے یعنی وکالت سے بہت دور تھا۔ اس نے ایک فیکٹری میں حساب کتاب کی نوکری کو پسند کیا تھا۔اپنے بھائی کے جنم دن پر جیسوال خوشی سے کھل اُٹھا تھا۔ پورا گھر جیسے دلہن کی طرح سجا دیا تھا۔ جب سارے مہمان آگئے تو پھروہ سب سے مخاطب ہوا:۔
میں آپ سب کا بہت مشکور ہوں جنہوں نے میرے دعوت نامے کو قبول کرکے مجھے عزت بخشی ۔۔۔ جیسے کہ آپ سب جانتے ہیں کہ آج میرے بھائی کا جنم دن ہے ۔۔۔ اس لئے آج یہاں کیک کانٹے کے بعد ایک محفل لگے گی جس میں کچھ مقابلوں کا بندوبست کیا گیا ہے ۔۔۔آپ سب کو مقابلوں کی پوری تفصیل میں کیک کٹنے کے بعد ہی بتا ؤں گا ۔۔۔ مقابلے کے بعد آپ کے لئے کھانے کا بھی بندوبست کیا گیا ہے ۔۔۔ لہٰذا آپ سب کھانا کھا کر جائیے گا ۔ ایم اے جیسوال نے بلند آواز میں سب سے کہا جس پر سب کیک کی تلاش میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگے۔ تبھی ایک نوکر کیک کی میز لئے وہاں آیا۔ پھر سب اس میز کے اردگرد جمع ہوگئے ۔ایم اے جیسوال اور اس کا بھائی آکاش بھی کیک کی میز کی طرف بڑھے ۔ آکاش نے کیک کانٹے کے لئے ہاتھ آگئے بڑھایااور پھر کیک کے کٹتے ہی پورا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔اس کے ساتھ ہی سب آکاش کو جنم دن کی مبارک باد بھی پیش کر رہے تھے ۔ ایم اے جیسوال نے بھی اس موقع پر اپنے بھائی کو گلے سے لگا لیا۔پھر کیک سب کو کھلایا گیا۔کیک کی اس تقریب سے فارغ ہو کر سب اپنی اپنی جگہ پر واپس بیٹھ گئے ۔اب مقابلہ شروع ہونا تھا۔ایم اے جیسوال مقابلے کے بارے میں کچھ بتانے ہی والا تھا کہ اس کے والد کی آواز سنائی دی ۔
جیسوال بیٹا۔۔۔ میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ تم زرہ میرے ساتھ آؤ ۔ جیسوال کے والد پورب کمار نے اشارہ کرکے کہا۔
اچھا ڈیڈ۔۔۔ چلئے ۔ جیسوال نے مسکرا کر کہا۔ وہ اپنے والدکو ڈیڈ کہہ کر مخاطب کر تا تھا۔پھر جیسوال اور اس کے والد پورب کمار ہال سے باہر نکل کر ایک کمرے میں آگئے ۔ جیسوال نے ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
مہمان بہت زیادہ آ گئے ہیں جس کی وجہ سے کھانا کم پڑ جائے گا ۔۔۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تم باہر سے ایک دیگ اور منگوالو۔اس کے والد پورب کمار پریشان ہو کر بولے۔
ٹھیک ہے ڈیڈ۔۔۔ میں ابھی فون کرکے ریسٹورنٹ سے ایک دیگ اور منگوا لیتا ہوں۔ جیسوال نے پرسکون لہجے میں کہا۔
ریسٹورنٹ والوں کا نمبر نہیں لگ رہا۔۔۔ میرا خیال ہے تمہیں خود ہی جاکر دیگ لانی ہوگی۔۔۔ نوکروں کو میں یہ کام کہہ سکتا تھا لیکن وہ کھانے کی دیگ میں مرغی کی رانیں کم دلوائیں گے ۔۔۔ تم ذرہ مرغی اضافی بھی دلوا لو گے۔پورب کمار مسکرا کر بولے۔
اچھا ۔۔۔ میں خود چلا جاتا ہوں ۔۔۔ خوش۔جیسوال نے بھی مسکرا کر کہااور کمرے سے باہر نکل گیا۔ باہر نکل کر وہ مہمانوں سے مخاطب ہوا:۔
مجھے کچھ ضروری کام سے باہر جانا پڑ رہا ہے ۔۔۔ میں بہت جلد آپ کے پاس موجود ہونگا۔ جیسوال نے بلند آواز میں کہا جس پر سب نے سر ہلا دیا۔ پھر وہ گھر کے اندرونی دروازے سے باہر نکل گیا۔اس نے گھر کے گیراج سے اپنی گاڑی نکالی اورگاڑی کو صدر دروازے سے باہر لے آیا۔پھر اُس نے گاڑی کی ریس دبائی۔ گاڑی فراٹے بھرتی وہاں سے نکلنے کے لئے تیار ہوگئی۔ تبھی وہ چونک اُٹھا۔ کوئی شخص بدحواسی کے عالم میں اس کے گھر کے صدر دروازے کی دیوار پھلانگ کر باہر نکل رہا تھا۔ ایم اے جیسوال کے چہرے پر حیر ت کا سمندر نظر آنے لگا۔ابھی وہ حیرت کا بت بنے اس آدمی کو اپنے گھر سے باہر نکلتے دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک کان پھاڑ دینے والا زبردست دھماکا ہوا۔ جیسوا ل کا گھر آگ کے شعلوں میں ڈوب کر رہ گیا۔خود اس کی گاڑی بارود کے اثر کی وجہ سے اُلٹ گئی۔ جیسوال کا سر گاڑی کے سٹرینگ ویل سے ٹکرایا اورخون کا ایک فوارہ اس کے سر سے نکلا۔ دوسرے ہی لمحے اس نے ہوش کی واد ی سے نکل کر بے ہوشی کے میدان میں قدم رکھ دیا۔ دوسری طرف اس کا گھر دھماکے کے بعد آگ کی لپیٹ میں تھا ۔ شعلوں سے بھری آگ چند منٹ میں اس کے گھر کو جلا کر راکھ کر سکتی تھی۔

٭٭٭٭٭
ایل ایل بی شہباز احمد اپنے دفتر میں بیٹھے کچھ ضروری فائلوں کی ورق گردانی کر رہے تھے ۔ اُن کے ساتھ اُن کے بیٹے عرفان برادرز بیٹھے اُونگھ رہے تھے ۔ کافی دنوں سے اُنہیں کوئی نیا کیس بھی نہیں ملا تھا۔ گزشتہ کیس بھی مکمل طور پر ایل ایل بی شہبازاحمد نے ہی حل کیا تھا۔ عرفان برادرز کو کچھ بھی کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اس وجہ سے وہ کافی پریشان تھے ۔ ابھی کچھ ہی مہینوں پہلے اُنہوں نے اپنے والد کے دفتر میں اپنا پرائیوٹ جاسوسی کا ادارہ کھولا تھا لیکن اب تک کوئی بھی اُن سے کسی قسم کا کیس حل کرانے نہیں آیا تھا۔
ایک سوال ذہن میں کھلبلی مچا رہا ہے ۔سلطان معمول کے مطابق شوخ تھا۔
وہ کون سا ۔ عدنان نے تجسس سے پوچھا۔
اگر کوئی شخص13اگست کی رات گیارہ بج کر اُنسٹھ(59) منٹ پر پیدا ہوا ہے ۔۔۔ تو پھر اُس کی سالگرہ 13اگست کو منائی جائے گی یا 14 اگست کو ۔ سلطان مصنوعی پریشانی سے بولا۔
ایسا بے تکا اور بے معنی سوال تمہارے ہی ذہن میں آسکتا ہے۔ عرفان بیزار ہو کر بولا۔
وہ کیوں بھلا۔ سلطان حیران ہو کر بولا۔
کیونکہ تمہارے دماغ میں جو کیڑے ہیں وہ بہت فرسودہ اور بے کار ہیں۔ عرفان جھلا اُٹھا۔
تو کیا تمہارے دماغ کے کیڑے کارآمدا ور قیمتی ہیں ۔سلطان نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا۔
لڑکو۔۔۔ تم لوگ کچھ کام کے بھی ہو یا بالکل ہی نکمے ہو ۔۔۔تمہاری بہن سادیہ اپنی سہیلی کے گھر گئی ہوئی ہے ۔۔۔اُسے وہاں گئے دو گھنٹے ہوگئے ہیں ۔۔۔ تم لوگوں کی ذمہ داری تھی کہ اُسے وہاں سے لے کر آنا ہے ۔بیگم شہباز کی تیز آواز اُن کے کانوں سے ٹکرائی۔
اچھا امی جان۔۔۔ چلو بھئی ۔۔۔ اُس مہارانی صاحبہ کو لینے چلتے ہیں ۔عمران نے جلے کٹے لہجے میں کہااور وہ سب غصیلے انداز میں اُٹھ کھڑے ہوئے ۔ اُنہیں تو کسی کیس کا انتظار تھا اور یہاں کیس کی بجائے اُنہیں سادیہ کو لینے جانا پڑ رہا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ سب جلے بھنے انداز میں اُٹھے تھے ۔ دفتر نے باہر نکل کر اُنہیں نے ایک ٹیکسی پکڑی اور اوراُسے سادیہ کی سہیلی کائنات کے گھر کا پتا بتایا ۔ دوسرے ہی لمحے ٹیکسی فراٹے بھرتی وہاں سے روانہ ہوگئی۔
میں پوچھتا ہوں اگر سادیہ دوپہر کو تنہا اپنی سہیلی کے گھر جا سکتی ہے تو پھر شام کو واپس تنہا اپنے گھر کیوں نہیں آسکتی ۔عرفان نے بھڑک کر کہا۔
کیونکہ سہیلی کے گھر کا راستہ زرہ آسان ہے ۔۔۔ اپنے گھر کا راستہ اُسے یاد نہیں رہتا ہو گا۔ سلطان نے شوخ لہجے میں کہا۔
میں پہلے ہی بہت غصے میں ہوں ۔۔۔ اگر ابھی مذاق کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔ عرفان نے اُسے کھاجانے والے انداز میں دیکھا۔
اچھا بڑے بھائی۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ آپ سب سے زیادہ برے بن جاؤ ۔سلطان منمنایا جس پر اُن سب کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔آخر وہ سادیہ کی سہیلی کائنات کے گھر پہنچ گئے ۔گھر کے دروازے پر دستک دے کر اُنہوں نے کچھ دیر انتظار کیا ۔ آخر دروازہ کھول دیاگیا۔ سامنے کائنات کھڑی تھی۔
ارے آپ لوگ یہاں ۔۔۔ سب خیریت تو ہے نہ ۔کائنات نے چونک کر کہا جس پر وہ حیران ہو کر اُسے دیکھنے لگے۔
کیا مطلب !۔۔۔ ہم لوگ تو یہاں سادیہ کو لینے آئیں ہیں ۔۔۔ پھر تم ہمیں دیکھ کر چونک کیوں رہی ہو ۔سلطان حیرت زدہ تھا۔
سادیہ !۔۔۔ سادیہ تو یہاں نہیں آئی ۔۔۔ آپ لوگوں کو کس نے کہا کہ وہ یہاں آئی ہے ۔کائنات نے نفی میں سر ہلایا جس پر وہ سب دھک سے رہ گئے۔حیرت کے ساتھ خوف بھی اُن کی آنکھوں میں شامل ہوگیا۔
یہ تم کیا کہہ رہی ہو ۔۔۔ ابھی دوپہر ٹھیک دو بجے سادیہ تمہارے گھرکے لئے نکلی تھی۔۔۔ اب چار بج چکے ہیں ۔۔۔ وہ تمہارے گھر تو دو بجے ہی پہنچ گئی ہوگی ۔۔۔ تم ضرور مذاق کر رہی ہو نہ۔ سلطان نے آخری جملہ مسکرا کر کہا۔
نہیں !۔۔۔ میں مذاق نہیں کر رہی ۔۔۔ وہ سچی میں یہاں نہیں آئی۔ کائنات نے گھبرائے ہوئے انداز میں کہا۔
کائنات تمہاری طرح نہیں ہے جو اس سنجیدہ ماحول میں مذاق کرئے۔عدنان نے چوٹ کی۔
میرا خیال ہے سادیہ سہیلی کا بہانہ بنا کر کہیں اور چلی گئی ہے ۔۔۔ آؤ ۔۔۔ اباجان کو اُس کی شکایت لگائیں۔سلطان نے بچوں کی طرح خوش ہو کر کہا۔
سلطان سنجیدہ ہو جاؤ۔۔۔ یہ معاملہ اتنا سلجھاہوا نہیں ہے جتنا تم سمجھ رہے ہو ۔۔۔ اباجان کے ہزاروں دشمن ہیں ۔۔۔کئی بار اباجان نے مجرموں کو عمر قید اور پھانسی کی سزا دلوائی ہے ۔۔۔لہٰذا اُن مجرموں کے رشتہ دار یا بھائی یا دوست اباجان سے بدلہ لینے کے لئے کوئی بھی گھناؤنا کام کر سکتے ہیں ۔۔۔ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔۔۔ کہیں سادیہ کو اغوا نہ کر لیا گیا ہو ۔عرفان نے ایک ایک لفظ ٹھہر ٹھہر کر کہا جس پر اُن سب کے چہروں کا رنگ اُڑ گیا۔اُنہیں لگا جیسے کسی نے اُن کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکال لی ہو ۔ خوف ہی خوف اُن کی آنکھوں میں نظر آنے لگا۔سادیہ کے اغوا کا سن کر اُن کی حالت بالکل ردی ہو چکی تھی۔

٭٭٭٭٭
باقی آئندہ
٭٭٭٭٭