google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 7 of 7

    Thread: Jurm Ki Kahani - Suspense Full Novel - Written By Shahid Bhai

    Threaded View

    1. #2
      New Member Shahid Bhai's Avatar
      Join Date
      Apr 2017
      Posts
      19
      Threads
      3
      Thanks
      2
      Thanked 10 Times in 8 Posts
      Mentioned
      1 Post(s)
      Tagged
      0 Thread(s)
      Rep Power
      0

      Re: Jurm Ki Kahani - Suspense Full Novel - Written By Shahid Bhai

      جرم کی کہانی
      تحریر :۔ شاہد بھائی
      قسط نمبر - 2

      مجید کے ہاتھ فون کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ وہ اپنے دل کی دھڑکن کو معمول سے تیز محسوس کر رہا تھا۔ اپنے والدکی جان بچانے کے لئے وہ ہر وہ کام کرنے کے لئے تیار تھا جو اْسے کرنے کے لئے کہا جائے ۔ ننھے ارسلان کا چہرہ بار بار اْس کی آنکھوں کے سامنے آجاتا جو اپنے دادا ابو کو صحت یاب دیکھنا چاہتا تھا۔ اِن حالات میں مجید کے ہاتھ فون کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ وہ کاغذ پر لکھے نمبروں کو ڈائل کرنے لگا ۔ دوسرے ہی لمحے سلسلہ مل گیا۔
      اسلام علیکم !۔۔۔ میں مجید بات کر رہاہوں ۔مجید جلدی سے بولا۔
      مجید تمہارے والد کی جان خطرے میں ہے اور اْنہیں فوراََ اْپریشن کی ضرورت ہے ۔۔۔اْپریشن کے لئے ڈاکٹروں نے تم سے پچیس لاکھ روپے مانگے ہیں ۔۔۔ اِن حالات میں تم خود کو مجبور محسوس کررہے ہو ۔۔۔ میں یہ ساری باتیں جانتا ہوں اور یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تم نے میرا کام کر دیا تو تمہیں پچیس لاکھ روپے مل جائیں گے ۔دوسری طرف سے کسی نے بھاری آواز میں کہا۔آواز سے صاف محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اپنی آواز بنا کر بات کر رہا ہے۔
      تم کیا چاہتے ہو ۔مجید نے اْلجھ کر کہا۔
      تمہیں صرف میرا ایک کام کرنا ہے ۔۔۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ تم شہر کی مشہور سڑک جاپانی چوک پرجاؤ ۔۔۔ وہاں تمہیں کچھ نوٹ ملیں گے ۔۔۔ وہ نوٹ تم غریبوں میں صدقہ کر دو او ر پھر شہرکے مشہور رئیس افتخار عالم کے گھر کے ایک کمرے سے تمہیں پچیس لاکھ روپے مل جائیں گے ۔۔۔ وہ پیسے میں نے ہی وہاں رکھے ہونگے ۔۔۔ تم پر چوری کا الزام نہیں لگے گا اِس بات کی ذمہ داری میری ۔۔۔ تم میری بات سمجھ گئے ہو نہ ۔یہاں تک کہہ دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔
      میں تمہارے اِس کا م کا مقصد نہیں سمجھا۔۔۔ تم غریبوں میں پیسے صدقہ کرنا چاہتے ہو تو خود یہ کام کیوں نہیں کر لیتے ۔مجید نے اْلجھن کے عالم میں کہا۔
      اگر سوا ل کرو گے تو پیسے ہاتھ سے جائیں گے ۔۔۔ اور اگر پیسے ہاتھ سے جائیں گے تو تم جانتے ہو اپنے باپ کی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھو گے ۔۔۔ اِس لئے جیسا کہا گیا ہے ویسا کرو ۔۔۔ابھی اور اِسی وقت جاپانی چوک پہنچو اور پھر آج رات کو ہی پیسے غریبوں میں تقسیم کرکے سیٹھ افتخار عالم کے گھر پہنچ جانا ۔دوسری طرف سے کہا گیا ۔اگلے ہی لمحے سلسلہ منقطع ہوگیا۔ مجید کی الجھن کا کیا پوچھنا ۔وہ حیران و پریشان کھڑا سوچ رہا تھا کہ فون کرنے والا آخر چاہتا کیا ہے ۔ سیٹھ افتخار عالم کے گھر میں ایسا کیا ہے جو وہ اْسے وہاں بھیجنا چاہتا ہے ۔ تبھی اْس کی نظر گھڑی پر پڑی۔ اِس وقت ساڑھے سات بج چکے تھے اور ڈاکٹر نے اْسے صرف آج رات تک کا وقت دیا تھا۔ اِن حالات میں اْس نے اپنی ساری الجھن کو اپنے دماغ سے نکال پھینکا اور گھر سے باہر نکل گیا۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ننھے ارسلان کی نظر اْس پر پڑی تھی اور وہ سوالیہ نظروں سے مجید کی طرف دیکھ رہا تھا۔ مجید اْس کی نظروں سے نظریں نہ ملا سکا اور گھبرا کر باہر نکل آیا۔ وہ ننھے ارسلان کو کیسے سمجھاتا کہ اْس کے دادا ابو زندگی اور موت کے درمیان لڑائی لڑرہے ہیں اور دوسری طرف اْس کا باپ اْن کو زندگی دلانے کے لئے حالات سے لڑائی کر رہاہے۔ مجید نے باہر نکل کر ایک رکشہ پکڑا اور ایک آخری باہر ہسپتال کی طرف روانہ ہوگیا۔ ہسپتال پہنچ کر اْس نے آئی سی یو کے دروازے کی جھری میں سے اپنے والد اشفاق احمد کو دیکھا جو نہایت کمزور دکھائی دے رہے تھے ۔ اْن کی ناک پر سانس دینے والی مشین لگی تھی اور وہ نیم بے ہوشی کے عالم میں بستر پر پڑے تھے ۔ مجید زیادہ دیر تک یہ منظر نہ دیکھ سکا اور ہسپتال سے نکل آیا۔ اب اْس کا رخ جاپانی چوک کی طرف تھا۔ اْس نے رکشہ روکنے کا سوچا لیکن پھر اْس کا ہاتھ جیب کی طرف رینگ گیا۔ اْس کی جیب میں اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ جاپانی چوک کے رکشے کا کرایا اداکر سکے ۔ مجبوراََ وہ پیدل ہی روانہ ہوگیا۔ مجید کی ماں تو بچپن میں ہی اْس کا ساتھ چھوڑ چکی تھی اور خدا کے پاس پہنچ چکی تھی لیکن اْس کا باپ اب بھی اْس کے ساتھ تھا لیکن آج اْس کے والد بھی زندگی اور موت کے درمیان کشمکش کر رہے تھے ۔ اِن سب خیالوں نے مجید کے قدم تیز کر دئیے ۔ وہ جلد سے جلد جاپانی چوک پہنچنا چاہتا تھا۔ اْس کے ذہن میں یہ بات تھی کہ فون میں بات کرنے والاشخص اْس سے کوئی جرم نہیں کر ا رہا۔ خط پڑھ کر وہ یہ سمجھا تھا کہ اْسے کوئی سنگین جرم کرنے کے لئے کہا جائے گا اور اْس جرم کرنے کے بدلے پچیس لاکھ روپے دئیے جائیں گے لیکن فون پر تو غریبوں میں پیسے تقسیم کرنے کا کہا گیا تھا اور اِس کے بدلے میں سیٹھ افتخار عالم کے گھر سے پچیس لاکھ روپے وصول کرنے تھے ۔ مجید سمجھ گیا کہ اْسے فون کرنے والا ضرور سیٹھ افتخار عالم ہی ہے اور وہی اْس سے غریبوں میں پیسے تقسیم کرانا چاہتا ہے اور اِس کام کے بدلے اْسے پچیس لاکھ روپے دینا چاہتا ہے ۔ اْس کے ذہن میں خیال آیا کہ سیٹھ افتخار عالم نے اپنی زکوۃ کے کچھ پیسے نکالے ہونگے اورکسی طرح اْنہیں مجید کے حالات کی خبر ہوگئی ہوگی تو بس اْنہیں نے ایک چھوٹے سے کام کے بدلے میں مجید کو یہ زکوۃ کے پیسے دینے کا فیصلہ کر لیا ہوگا۔اِس طر ح کام کرنے کے بدلے میں پیسے ملنے پر مجید کی عزت نفس بھی مجروع نہیں ہوگی ۔ یہ سب سوچ کر مجید پرسکون ہوگیا ۔ وہ دل ہی دل میں سیٹھ افتخار عالم کو دعائیں دینے لگا۔ تبھی اْسے سامنے جاپانی چوک نظر آگیا۔ وہ جلدی جلدی قدم اْٹھانے لگا۔ آخر عین چوک کے درمیان پہنچ گیا۔ یہاں پہنچ کر اْس نے اِدھر اْدھر نظریں دوڑائیں ۔ چوک کے کونے پر اْسے کچڑہ کنڈی نظر آئی جہاں بے تحاشہ گندگی پھیلی ہوئی تھی۔ اْس نے ایک نظر اْس گندگی پر ڈالی ۔ دوسرے ہی لمحے وہ چونک اْٹھا۔ گندگی کے ڈھیر میں پانچ پانچ سو کے نوٹ پڑے تھے ۔ مجید نے جلدی سے قدم اْٹھائے اورپھر گندگی کے پاس پہنچ کر پانچ پانچ سو کے دس کے قریب نوٹ اْٹھا لیے ۔ گویا یہ پانچ ہزار تھے ۔ مجید نے جلدی سے پیسے جیب میں ڈالے اور پھر اِدھر اْدھر نظریں دوڑائیں ۔ یہاں اْسے کوئی غریب یا بھکاری نظر نہ آیا۔ مجیدایک پل کے لئے سوچ میں پڑگیا او رپھر اْس نے پیدل ایک طرف کا رخ کیا۔ پندرہ منٹ تک چلنے کے بعد وہ ہسپتال میں داخل ہو رہا تھا۔ اْس نے سوچا تھا کہ ہسپتال میں اْس جیسے نہ جانے کتنے لوگ ہونگے جو اْپریشن کے پیسے ادا نہیں کر سکتے ہونگے ۔ سب سے پہلے اْس کی نظر ایک غریب حلیہ والے شخص پر پڑی۔ وہ بے تابی سے باہر ٹہل رہا تھا۔ مجید اْس کے قریب پہنچ گیا۔
      کیا ہوا بھائی ۔۔۔ آپ بہت پریشان دکھائی دیتے ہو ۔مجید نے نرم لہجے میں کہا۔
      ہاں بھائی ۔۔۔ میری ماں کی حالت بہت خراب ہے ۔۔۔ اْس کے گردے میں پتھری ہوگئی ہے ۔۔۔فوراََ اْپریشن کرنا پڑے گا۔۔۔ اْپریشن کے لئے ہسپتال والے پچیس ہزار مانگ رہے ہیں لیکن میرے پاس صرف بیس ہزار کے قریب پیسے ہیں ۔۔۔ میں پریشان ہوں کہ باقی پانچ ہزار کا بندوبست کیسے کرؤں ۔وہ آدمی روانگی کے عالم میں بولتا چلا گیا۔ مجید ایک پل کے لئے رکا اورپھر اچانک آہستہ سے اْس کی مٹھی کھولی اور اپنی بند مٹھی اْس کی مٹھی میں کھول دی اور پھر فوراََ اْس کی مٹھی بند کر دی۔ یہ سب اْس نے ایک سیکنڈ میں کیا تھا۔ وہ آدمی ہکا بکا رہ گیا۔ مجید کے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ پھیل گئی اورپھر وہ اْس آدمی کے کندھے تھپتھپاتے ہوئے ہسپتال سے باہر نکل آیا۔مجید کے جانے کے بعد اْس شخص نے اپنی مٹھی کھولی تو اْس میں پانچ پانچ سو کے کڑک نوٹ تھے اور یہ پورے پانچ ہزار تھے ۔ اْس آدمی کی نظریں بے اختیار انہ طور پر اْوپر اْٹھ گئیں اور پھر وہ اللہ کا شکر ادا کرنے لگا۔دوسری طرف مجید کا رخ اب سیٹھ افتخار عالم کی کوٹھی کی طرف تھا۔تھوڑی دیر بعد وہ سیٹھ افتخار کی کوٹھی میں داخل ہو رہا تھا۔ کوٹھی کے باہر کوئی نہیں تھا۔ مجید کو اِ س بات پر بہت حیرت ہوئی لیکن پھر وہ اپنے ذہن کو جھٹک کر کوٹھی کے اندر داخل ہوگیا۔ کوٹھی میں گہری خاموشی تھی ۔ سردی کے دنوں میں لوگ آٹھ یا نوبجے سے ہی لحافوں میں دبک جاتے ہیں ۔ یہ خیال آتے ہی مجید ایک بار پھر پرسکون ہوگیا۔ مجید نے ایک نظر کوٹھی پر ڈالی اور پھر اْسے سامنے ایک بڑا سا کمرے کادرواز ہ نظر آیا ۔ وہ ایک پل کے لئے رکا اور پھر دوسرے ہی لمحے اْس دروازے کی طرف بڑھنے لگا۔ دروازے کے پاس پہنچ کر مجید نے دروازے پر دباؤ ڈالا۔ دروازہ کھلتا چلاگیا۔ مجید کمرے میں داخل ہوا اور پورے کمرے کا جائزہ لینے لگا ۔ یہاں کوئی نہیں تھا۔ کمرے میں دو صوفے اور ایک میز رکھی ہوئی تھی ۔اِس کے علاوہ سگریٹ پینے کی آس ٹرے بھی میز پر رکھی ہوئی تھی۔ کمرے کی سامنے والی دیوار پر مختلف تصوریں لگی تھی جو زیادہ تر افریقہ اور دوسرے باہر ممالک کے جنگلوں کی تھیں ۔ مجید سمجھ گیا کہ یہ ڈرائنگ روم ہے ۔ تبھی اچانک مجید کے کانوں میں دل دوز چیخ کی آواز گونجی ۔ اْس کے چہرے کا رنگ اْڑ گیا۔ چیخ کی آواز میں گہری لرزش تھی جیسے کسی کی آخری چیخ ہو ۔ وہ گھبرا کر باہر نکل آیا اور چیخ کی سمت میں دیکھا۔ یہ ایک کمرہ کا دروازہ تھا۔ چیخ اِسی کمرے سے آئی تھی ۔ مجید جلدی سے اْس کمرے میں داخل ہوگیا اورپھر بری طرح چونک اْٹھا۔ سامنے امیرانہ لباس پہنا ایک شخص بری طرح تڑپ رہا تھا۔ اْس کے سینے میں دستے تک چاقوگھونپاہوا تھا۔خون نے اْ س کے شاہانہ کپڑے سرخ کردئیے تھے ۔ مجید حیران و پریشان کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ تبھی دوڑتے قدموں کی آواز سنائی دی ۔ مجید چونک کر مڑا تو سامنے دو آدمی ، دو بچے اور ایک عورت کھڑے اْسے بری طرح گھور رہے تھے ۔
      یہ تم نے کیا کیا ۔۔۔ میرے شوہر کو کیوں مارا ۔وہ عورت چلائی ۔
      یہ سب چھوڑئیے بھابی ۔۔۔ افتخار بھائی کو فوراََ ہسپتال لے جانا ہوگا ۔وہاں کھڑا ایک شخص گھبرا کر بولا جو شایدفرش پر پڑے شخص یعنی سیٹھ افتخار عالم کا بھائی تھا۔ تبھی سیٹھ افتخار نے دم توڑ دیا۔مجید کے چہر ے کا رنگ سفید پڑ چکاتھا۔ دوسری طرف سیٹھ افتخار کی بیگم اپنے شوہر کی لاش کے پاس بیٹھ کر سسکیاں لے لے کر رو نے لگی ۔ سیٹھ افتخار کا بھائی بھی رونے لگا تھا۔ وہاں موجود دو بچے بھی زور و قطار رونے لگے۔ شاید وہ سیٹھ افتخار کے بیٹے تھے ۔ وہاں موجود دوسرا شخص بھی حسرت بھری نظروں سے سیٹھ افتخار کی لاش کو دیکھ رہا تھا۔ یہ لباس سے گھر کا ملازم لگ رہا تھا۔
      یہ تم نے کیا کیا ۔۔۔ افتخار بھائی سے تمہیں کیا دشمنی تھی ۔سیٹھ افتخار کا بھائی روتے ہوئے بولا۔
      پولیس کو فون کریں جمیل بھائی ۔۔۔ یہ شخص رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے ۔بیگم افتخار عالم سسکیا ں لیتے ہوئے بولیں ۔ دوسرے ہی لمحے سیٹھ افتخا ر کے بھائی جمیل نے موبائل نکالا اورپولیس کو فون کرنے لگا۔ پندرہ منٹ بعد پولیس گھر میں داخل ہوگئی۔ اِ س دوران مجید بالکل خاموش کھڑا رہا تھا۔ شایدوہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا کچھ ہو سکتا ہے ۔تبھی ایک سب انسپکٹر کمرے میں داخل ہوا ۔ سب انسپکٹر کا نام تنویر غوری تھا۔سب انسپکٹر تنویر نے لاش کا جائزہ لیا اورپھر گھر والوں کی طرف مڑا۔
      آپ لوگوں کو کیا لگتا ہے ۔۔۔ سیٹھ صاحب کو کس نے قتل کیا ہے ۔سب انسپکٹر تنویر نے سوال کیا۔
      قاتل رنگے ہاتھوں پکڑا گیاہے تنویر صاحب ۔۔۔ میں نے بھابی نے ہمارے ملازم شرفو نے اوربھائی صاحب کے دو بچے عبدالرحمان اورعمر نے یہ منظر صاف دیکھا ہے ۔ سیٹھ افتخار کا بھائی جمیل بولتا چلاگیا۔
      کون ہے قاتل ۔۔۔ کون سے منظر کی بات کر رہے ہیں آپ ۔سب انسپکٹر تنویر نے اْلجھ کر کہا۔
      جب ہمیں بھائی صاحب کی چیخ کی آواز سنائی دی اْسی وقت ہم دوڑکر اْن کے کمرے میں آئے تو یہ شخص بھائی صاحب کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔ اِس وقت تک یہ اپنا کام کر چکا تھا ۔جمیل نے وضاحت کی۔
      اوہ !۔۔۔ پھر تو تفتیش کی ضرورت ہی نہیں ۔۔۔ کیس تو پہلے ہی حل ہو چکا ہے ۔۔۔ حوالدار قاتل کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ڈال دو ۔سب انسپکٹر تنویر نے خوش ہو کرسامنے کھڑے حوالدار سے کہا۔
      لیکن جناب ۔۔۔ میر ی بات تو سن لیں ۔مجید نے گھبرا کر کہا۔
      ہمیں کچھ نہیں سننا ۔۔۔ تم رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہو ۔۔۔ اب جو کچھ کہنا عدالت میں کہنا۔ سب انسپکٹر تنویر نے سخت لہجے میں کہا۔ دوسرے ہی لمحے ہتھکڑی کا جوڑا مجید کی طرف بڑھنا لگا اور وہ بے بسی کے عالم میں یہ منظر دیکھنے لگا۔

      ٭٭٭٭٭
      باقی آئندہ
      ٭٭٭٭٭


      Last edited by Shahid Bhai; 07-24-2018 at 03:00 PM.

    2. The Following User Says Thank You to Shahid Bhai For This Useful Post:

      Jelly Bean (08-04-2018)

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •