قابلِ احترام ظفر جی
اسلام علیکم
کافی سوچ و بچار کے بعد آپ کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا- اور اس فیصلے کی وجہ شریفہ یہ ہے کہ فی زمانہ آپ ایک شریف النفس انسان ہیں- جن پر پاکستان ہی نہیں خطّے کی ہر خاتون بھرپور اعتماد کر سکتی ہے
میری عمر 22 سال ہے- تعلیم میٹرک ہے- چار بہنیں مجھ سے بڑی ہیں- والد صاحب ایک نیک اور پرہیزگار سرکاری افسر ہیں
دو سال پہلے میں نے فیس بک پر “اقابر پرست” کے نام سے اکاؤنٹ بنایا تھا- گھر میں مذھبی ماحول کی وجہ سے ارادہ اسلامی نشرو اشاعت کا تھا
میں نے شارٹ اسٹیٹس سے اپنے کیریر کا آغاز کیا- کچھ کاپی پیسٹ اسلامی مضامین بھی لکھے- لیکن اتنی محنت کے باوجود وال ہمیشہ سونی ہی رہی- بس ایک بندہء خدا نام جس کا ” فرشتہ خان” تھا کمنٹ میں سبحان اللہ ماشاءاللہ پیسٹ کر کے پرواز کر جاتا- دوسرا ایک ملحد تھا جو کبھی کبھار تالیاں بجاتا ہوا وارد ہوتا اور گالیاں کھا کر رخصت ہوتا
ایک دن تنہائ میں خیال آیا کہ نقار خانے میں توتی کی آواز نکالنے سے بہتر ہے دین کی سربلندی کےلئے کچھ قربانی دی جائے- چنانچہ اسی دن خود کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا- اور ایک نئ آئ ڈی بنا ڈالی- دکان پہ تختی “کوثر پروین” کی.لگائ- ڈی پی میں ایک نقاب پوش بی بی کی تصویر سجائ اور کام کا آغاز کر دیا
پہلے روز ٹرائ کےلیے میں نے صرف دو لفظی اسٹیٹس لکھّا
” سر بکف ، سربلند”
جس کے جواب میں ساڑھے آٹھ سو بندوں نے ایک جیسا نعرہ لگایا جبکہ چار پانچ شیطانوں نے قدرے برا قافیہ ملایا- مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا- حالانکہ پچھلی آئ ڈی پر اس طرح کے اسٹیٹس فرشتہ بھی سونگھنے کی زحمت نہ کرتا تھا
اس رات مجھے ساڑھے تیئس سو لائکس ملے ، گیارہ سو پچاس فرینڈ ریکویسٹیں موصول ہوئیں- ڈیڑھ سو سے زائد نے اپنے گروپ میں ایڈا-چالیس ان بکس میسیجز ملے اور چار پانچ نے تو ان بکس میں تصویر کی فرمائش بھی کر ڈالی
اس کے بعد اپنا کام چل نکلا- میرا لکھا ہاتھوں ہاتھ نکلنے لگا- بڑے بڑے علامے ، دانشور اور صحافی میری پوسٹ پر یوں اترتے جیسے چیلیں کوّے تازہ گوشت پر امڈتی ہوں- بے شمار رضاکار میرے ان بکس میں آ کر پکاپکایا مال چھوڑنے لگے- لکھے لکھائے اسٹیٹس میرے مال خانے میں سڑاند چھوڑنے لگے اور دکان خوب چل نکلی
میں نے ملحدین کو لتاڑا ، غامدین کو پچھاڑا- میں شیرنی بن کر اسلام مخالف اسٹیٹس پر جھپٹنے لگا- میرا رضاکار دستہ نوٹس ملتے ہی جنّات کی طرح حاضر ہوتا اور کشتوں کے پشتے لگا دیتا- جہاں دلیل نہ ملتی وہاں خصم کو ذلیل کر کے بھگایا جاتا- کئ قلعے فتح کرنے کے بعد ارادہ فرقہء بریلویہ اور اہل شیعہ پر یلغار کا تھا- اس دوران ایک آزمائش نے گھیر لیا
کچھ روز سے طبیعت میں ہیجان تھا- بار بار پیٹ میں درد اٹھتا- آخر ایک روز چکرا کر گر پڑا- ابا جی سول ھسپتال لے گٰئے- انہوں نے لاہور کے ایک بڑے ھسپتال ریفر کر دیا- ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے گھنٹوں میرا طبی معائنہ کیا اور بالاخر والد محترم کو یہ بدخبری سنائ کہ آپ کا بیٹا “ھارمون ڈس آرڈر” کا شکار ہے- اس کی سیکس ری اسائنمنٹ سرجری کرنا پڑے گی- لاکھ ڈیڑھ لاکھ خرچ آئےگا اور یہ میل سے فی میل بن جائے گا
یہ سُن کر گھر والوں پر اوس گر گئ- چار بیٹیوں کا بوجھ کیا کم تھا کہ اکلوتا بیٹا بھی ہاتھ سے نکلنے لگا لیکن آپریشن بہرحال ضروری تھا- اگلے ہی مہینے ” ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی” شروع ہو گئ- اس کے بعد ” فیشل ہیئر ریموونگ” کا مرحلہ آیا- موسم سازگار رہا تو اگلے ہفتے آپریشن متوقع ہے
مجھے یاسیت گھیر رہی ہے- آزادی سلب ہوتی دکھائ دیتی ہے- پردے کا خوف سر پر سوار ہے- ھانڈی روٹی کا تصور رونگٹے کھڑے کیے جا رہا ہے- شادی کے خوف سے ہول اٹھ رہے ہیں- نجانے مجازی خدا کیسا ہو گا اور اس کے اعضائے رئیسہ کیسے ہونگے ؟
میرا خیال ہے یہ سب فیک آئ ڈی کا وبال ہے- اللہ نے مجھے کس شان کا مرد بنایا اور میں اس نعمتِ غیر مترقبہ کی قدر نہ کر سکا- خود کو اور اوروں کو دھوکے میں رکھا- ہائے افسوس کہ یہ سب کچھ میں نے دین کے نام پر کیا
اس خط کے توسط سے میری تمام مردان سخن سے التجاء ہے کہ محض شہرت کےلئے زینتِ چمن بننے سے اجتناب کریں ورنہ ایک دن کوئ نہ کوئ مجازی خدا ہمراہ اعضائے رئیسہ کے آپکی زندگی میں آن وارد ہوگا اور آپ کی چیخیں نکال دے گا
براہ کرم اس خط کو راز رکھیے گا اور اپنی وال کے سوا کہیں اور مت ٹانکیے گا
فقط آپ کا دوست
عبدالغفور عرف پاگل لڑکی
بشکریہ …. ظفر اقبال محمّد
Bookmarks