امریکہ میں لوگ ڈالر نہیں بچاتے، وقت بچاتے ہیں۔ پھر جب وقت کا صحیح مصرف ہونے لگتا ہے تو ڈالر خود ہی پس انداز ہونے لگتے ہیں۔ اس طرح ایک خاص قسم کی Frustration جنم لیتی ہے۔ مایاداس پر دولت کا بوجھ خودبخود بڑھتا ہے۔ دولت اپنی مشغولیات خود بڑھاتی ہے۔ محل نما گھر، ان گھروں کے انتظامات، بیرونی ممالک کے سفر، Designer کپڑوں او رجوتوں کی تلاش، دولت کی بناء پر شہرت کی ہوس۔۔۔۔ پارٹیاں، پی آر، پرسنیلٹی پرابلمز، نفسیاتی بیماریوں کا لاینحل سلسلہ جاری ہوجاتا ہے۔ جب ڈالر بچنے لگتے ہیں تو پھر ایک اور قسم کا Stress شروع ہوجاتا ہے۔ دراصل یہاں انسان پوری کوشش کرتا ہے کہ وہ ذہنی دباؤ سے نکلے۔ طمانیت قلب، سکون اور شانتی ملے۔ ۔۔۔ لیکن شاید معیشت اور معاشیات کو یہ کچھ درکار نہیں۔ زندگی کا اصل راز اسی Stress میں ہے ۔۔۔ یہ اور بات ہے کہ فلاح کے راستے پر چلنے والے دباؤ کی گھڑی سر سے اتار کر ملکوتی مسکراہٹ کے ساتھ گردوپیش میں ٹھنڈی چاندنی کی طرح پھرتے ہیں۔ نہ جہاں سوزی کا باعث بنتے ہیں نہ خود سوزی کا۔۔۔ لیکن اس سکون کے نسخے کا Patent وہ ایسی جگہ کراتے ہیں، جہاں سے نبیوں کا نسخہ سکون میسر آتا ہے اور اسے کسی اور زبان میں لکھا جاتا ہے۔
Similar Threads:
Bookmarks