بے سمت سب علاج مسیحا کہاں ملے
خضرانِ راہ میں کوئی اچّھا کہاں ملے
گِدھ کی نظر سے جب ہوں معالج بھی دیکھتے
زخموں سے چُور تن کو مداوا کہاں ملے
اُجڑے شجر پہ فاختہ پوچھے کہ امن کا
گوشہ کہاں ملے، اُسے سایہ کہاں ملے
زیرِ قدم ہے جو بھی وہ ہے بخت کی لکیر
سیدھا ہو مانگ سا جو وہ رستا کہاں ملے
ملتا تو ہے سکوں بھی مگر ناپ تول سے
جو چاہتا ہے دِل اُسے اُتنا کہاں ملے
ہر آنکھ میں جہاں ہو رعونت پئے مریض
ہونٹوں کے درمیاں اُسے پُرسا کہاں ملے
ماجدؔ غضب بھی جس میں تلّطف بھی جس میں ہو
تجھ کو عطا ہے جو سخن ایسا کہاں ملے
٭٭٭
ماجد صدیقی
Bookmarks