س… زید نے تمام عمر خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اَحکامات کی نفی میں گزاری، اب عمر کے اس حصے میں ہے جس میں خدا سے توبہ اور کردہ گناہوں پرشرمساری اور ندامت کا ہونا لازمی ہے۔ اس پر طرّہ یہ کہ زید نے اَزخود نہیں بلکہ لوگوں کے کہنے اور زور دینے پر حج کی سعادت بھی حاصل کرلی ہے، مگر حج جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کے بعد بھی زید کے اعمال پر رتی بھر اَثر نہیں پڑا، بلکہ اور بھی شدومد سے حلال سے گریز اور حرام سے قربت حاصل کرلی۔ دورانِ حج خانہ کعبہ اور روضہٴ رسول پر گناہوں کی معافی طلب کرکے بقیہ زندگی اسلام کے وضع کردہ قوانین کے مطابق بسر کرنے کا عہد کیا اور قسم کھائی تھی، مگر واپس آتے ہی گزشتہ اعمالِ بد اور شیطانی حرکات عود کر آئیں۔ لوگوں کے حقوق غصب کرنا، لوگوں کو طرح طرح کی اذیت دینا، جھوٹ اور بے ایمانی کو اپنا فرض سمجھ کر نہ صرف خود کرنا بلکہ اولاد کو اس کی تلقین کرنا، جو اولاد خدا خوفی سے ان باتوں سے پہلو تہی چاہے، اسے بُرا جان کر اپنے کو باپ ہونے اور باپ کا حکم ماننے پر اصرار کرنا وغیرہ وغیرہ۔ زید اپنی اس اولاد سے خوش ہے جو ان کی بتائی ہوئی راہ پر آنکھیں بند کئے گامزن ہے، حالانکہ ایک حدیثِ رسول ہے کہ “باپ اپنی اولاد کو جو کچھ بھی دیتا ہے، اس میں سب سے بہتر عطیہ اچھی تعلیم و تربیت ہے” زید نے اپنی اولاد کو اس راہ پر ڈال رکھا ہے جس کا دروازہ جہنم کے غار کی طرف کھلتا ہے، ہاں! دُنیا میں جنت بنارکھی ہے جبکہ یہ معلوم ہے کہ یہ جنت کتنے روز کی ہے۔ زید کی من جملہ باتوں سے اگر کوئی اولاد رُوگردانی کرنے کی جسارت کرے تو بڑے یقین سے کہا جاتا ہے کہ: “ہم سیّد ہیں، ہم آلِ رسول ہیں، بھلا ہمارا کسی سے کیا مقابلہ؟ یا ہم پر کون اُنگلی اُٹھائے گا؟” وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں دُنیا کو صاف صاف الفاظ میں یہ درس دیا تھا کہ کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت یا برتری حاصل نہیں ہے، اگر برتری حاصل ہے تو وہ اس کے تقویٰ اور پرہیزگاری پر۔ ان حقائق کے پیشِ نظر آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ آیا ایسے باپ کی اطاعت اور فرمانبرداری اولاد پر لازم ہے؟ جو اولاد کو حرام کھانے کی تلقین کرے، لوگوں کو اذیتیں دے، حقوق غصب کرے، لوگوں کے درمیان نااتفاقی اور نفاق پیدا کرے، بے ایمانی کو اپنا حق جانے اور خود کو “سیّد” کہہ کر جنت کا دعوے دار بنے؟ گویا “سیّد” ہونا ایک ایسی سند ہے کہ جو جی چاہے کرو، “سیّد” ہونے کا لیبل سینے پر سجاکر خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اَحکامات پامال کرتے رہو، ایسے لوگوں کے بارے میں ہمارا دِینِ مبین اور اَحکام نبوی کیا کہتے ہیں؟
ج… ماں باپ اگر کافر بھی ہوں، ان کی بے ادبی، توہین و تذلیل اور بے باکی کے ساتھ ان سے گفتگو کرنا جائز نہیں، بلکہ ان کا ادب و احترام بہرصورت لازم ہے، لیکن والدین اگر کسی غلط کام کا حکم کریں تو اس میں ان کی اطاعت حرام ہے۔ حدیث میں ہے کہ جس کام میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہو، اس میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ ان دونوں باتوں کو جمع کرنا بڑا صبرآزما امتحان ہے، کہ غلط کار والدین کی بے ادبی بھی نہ کی جائے اور گناہ کے کام میں ان کی اطاعت بھی نہ کی جائے۔
کیا والد کے فعلِ بد کا وبال اولاد پر ہوگا؟
س… میں انٹر تک تعلیم یافتہ ہوں، انٹر تک میں نے تعلیم کراچی ہی سے حاصل کی ہے۔ اس وقت میری عمر تقریباً ۲۳ سال ہوگی۔ آج سے ۷-۸ مہینے پہلے تک نماز اور دیگر عبادات کا پابند تھا، آج کل بھی نماز پڑھ لیتا ہوں، مگر زبردستی کبھی کبھار پڑھتا ہوں، دِل نہیں چاہتا، کچھ کمیونسٹ حضرات سے واسطہ ہے، ان کی باتیں سچی محسوس ہونے لگتی ہیں۔ گھر کے حالات کچھ یوں ہیں کہ میرے والد صاحب کے تعلقات کسی دُوسری عورت سے عرصہٴ دراز سے تھے، ان کی راہ میں ہم رُکاوٹ تھے، وہ اس عورت کے ساتھ گھر چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ عرصہ ۵ ماہ سے مجھے کوئی کام نہیں مل رہا، ۵ چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ہیں، والدہ ہر وقت لڑتی رہتی ہیں، میرے گھر میں میرے سوا سب ناخواندہ ہیں، دِل کی بڑی خواہش ہے کہ مقابلے کا امتحان پاس کروں، مگر ان حالات میں تو خودکشی کرنے کو جی چاہتا ہے۔ یا پھر سوچتا ہوں کہ میں بھی اپنے والد صاحب کی طرح گھر چھوڑ جاوٴں، کیونکہ گاوٴں والے اکثر طعنے دیتے ہیں کہ: “تمہارا باپ عورت نکال کر لے گیا ہے اور ۵۰ سال کی عمر میں اس کو شرم نہ آئی” وغیرہ۔ دِل ان باتوں سے بڑا پریشان رہتا ہے، میں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ: “تمہاری داڑھی کا کیا فائدہ؟ تمہارا باپ تو عورت نکال کر لے گیا ہے۔” باہر سے یہ باتیں سن کر جب گھر جاتا ہوں تو والدہ بچوں سے لڑ رہی ہوتی ہیں، ان حالات سے تنگ آگیا ہوں، قرآن پاک کی تلاوت کا میں بہت شوقین تھا، مگر اب دِل نہیں چاہتا، روزے میں نے رکھے ہیں، لیکن سوچتا ہوں کہ بالکل بیکار رکھے ہیں، کون سا اللہ نے قبول کرنے ہیں؟ اسی طریقے سے دُوسری اسلام کی عبادات کے متعلق سوچتا ہوں۔ میرے محترم! میں جب کراچی میں تھا تو آپ کا کالم روزنامہ “جنگ” میں پڑھتا تھا، اس کالم کی وجہ سے مجھ میں کافی ساری رُوحانیت اُبھر کر آئی تھی، مجھے بالا صورتِ حال کی روشنی میں بتائیے کہ آیا میں والد صاحب کے خلاف کوئی ایکشن لے سکتا ہوں یا پھر میں بھی گھر چھوڑ کر بھاگ جاوٴں؟
ج… جو لوگ آپ کو باپ کے فعل کا طعنہ دیتے ہیں، وہ غلط کرتے ہیں۔ آپ نہ تو لوگوں کی باتوں سے اثر لیں، نہ باپ سے انتقام لینے کی سوچیں، بلکہ صبر و استقلال کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں، اور جہاں تک ممکن ہو روزگار کا بندوبست کرلیں۔ غلط ماحول آدمی کو پریشان کردیتا ہے۔ آپ کی والدہ بھی حالات کی وجہ سے چڑچڑی ہوگئی ہیں، ان کو ہر ممکن راحت پہنچانے کی کوشش کریں، چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ شفقت و محبت کا برتاوٴ کریں۔ الغرض! ہمت اور حوصلے کے ساتھ گھر کے ماحول کو جنت کا ماحول بنانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ تو بندوں پر رحیم و کریم ہیں، آپ عبادات کا اہتمام کریں، ان سے اِن شاء اللہ آپ کو ذہنی سکون میسر آئے گا اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کریں، اِن شاء اللہ حالات بدل جائیں گے، میں بھی آپ کے لئے دُعا کرتا ہوں۔
والد اور والدہ کا اولاد کو ایک دُوسرے سے ملنے سے منع کرنا
س… میرے دوست الف عمر ۳۵ سال تقریباً، میرے دوست کی بہن ب عمر ۳۶ سال، الف اور ب کے ماں باپ آج سے تقریباً ۳۲ سال پہلے کسی گھریلو تنازع میں علیحدہ ہوجاتے ہیں، الف نے اپنی ماں کے ساتھ رہائش اختیار کی اور ب نے اپنے والد صاحب کے ساتھ رہنا پسند کیا، یہ بات یوں قدرتاً ہوئی۔ بعد میں ماں نے دُوسری شادی کرلی اور دُوسری اولاد بھی ہوئی، والد صاحب نے کوئی شادی نہیں کی، اب ان کی عمر تقریباً ۷۰ سال ہے، اور الف کو ماں نے پالا پوسا ہے، والد صاحب نے اس عرصے میں پوچھا تک بھی نہیں ہے۔ اب اس عمر میں جبکہ الف اور ب (بہن بھائی) غیرشادی شدہ ہیں آپس میں تین تین سال تک گفتگو یا خط و کتابت نہیں کرتے اور ناراضگی میں شدّت ہوتی جارہی ہے۔ بہن (ب) والد صاحب سے محبت کرتی ہے، اور بھائی (الف) والدہ سے بے انتہا محبت کرتا ہے، اس دوران بہن اور والد صاحب الف کو کبھی کبھی عاق کرنے کے خط بھی لکھتے ہیں۔ لیکن الف کہتا ہے کہ میں ماں سے الگ رہنے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا اور نہ ہی ایسی بات کرسکتا ہوں کہ جس سے والدہ کو صدمہ ملے۔ یہ سارا ماحول والدین کا پیدا کردہ ہے، حقیقتاً اس میں نہ الف کا قصور ہے اور نہ ب کا قصور! میں نے الف کو بہت سمجھایا ہے کہ والد صاحب کے بھی حقوق ہیں، انہیں ادا کرنا چاہئے، وہ جواب دیتے ہیں کہ تین مرتبہ ماں کا خیال رکھنا ہے اور ایک مرتبہ باپ کا، جبکہ باپ کے پاس جاتا ہوں تو گھر سے نکال دیتے ہیں۔
ج… لڑکی اور لڑکے دونوں کی پروَرِش جن کے پاس ہوئی، اس سے تعلق و محبت کا زیادہ ہونا تو ایک طبعی بات ہے، لیکن لڑکے کا اپنے باپ سے اور لڑکی کا اپنی ماں سے قطع تعلق کرلینا یا کئے رکھنا ناجائز ہے۔ اسی طرح والد کا اپنے لڑکے کو عاق کرنے کی دھمکیاں دینا بھی گناہ ہے۔ الف اور ب دونوں اب جوانی کی عمر سے آگے بڑھ رہے ہیں، ان کے والدین نے ان کی دُنیا تو برباد کی ہی تھی، اب ان کی آخرت بھی تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ الف کو چاہئے کہ وہ والدہ کو سمجھائے کہ وہ والد سے قطع تعلق پر مجبور نہ کرے، اسی طرح ب کو چاہئے کہ وہ والد سے کہے کہ اسے والدہ سے قطع تعلق پر مجبور نہ کرے۔ ان کا میاں بیوی کا رشتہ اگر شومیٴ قسمت سے ختم ہوگیا تھا تو ماں بیٹی کا اور باپ بیٹے کا رشتہ تو اَٹوٹ ہے، یہ تو ختم نہیں ہوسکتا، نہ کیا جاسکتا ہے، اور جب رشتہ قائم ہے تو اس کے حقوق بھی لازم اور دائم ہیں۔
بڑھاپے میں چڑچڑے پن والے والدین سے قطع تعلق کرنا
س… اگر والدین بڑھاپے کی عمرکو آئیں اور ان کے چڑچڑاپن یا دِماغ یا حافظہ کمزور ہونے کی وجہ سے جوان بیٹے بیٹیاں ان سے قطع تعلق کریں، کیا یہ جائز ہے؟ ان کے روزِ قیامت بخشش کے امکانات ہیں؟
ج… ایسی اولاد جو والدین کو ان کے بڑھاپے میں تنہا چھوڑ دیتی ہے، سخت گناہگار ہے۔ جو لوگ جنت میں نہیں جائیں گے ان میں والدین کے نافرمان کو بھی حدیث میں ذکر فرمایا ہے، اس جرم سے خدا کی پناہ مانگنی چاہئے اور والدین کو راضی کرنا چاہئے۔
والدین میں سے کس کی خدمت کریں؟
Bookmarks