ایک صحرا میں آپ کو ایک دم ایک ریلوے اسٹیشن نظر آجائےتو آپ کیا محسوس کریں گے۔۔
ایک نخلستان میں۔۔ایک پلیٹ فارم دِکھائی دے جائے۔۔کھجوروں کے جھنڈمیں ایک ریلوےلائن نظر آجائےتو کیا آپ یقین کرسکیں گے۔۔
میں بھی متحیرہوایقین نہ کرسکا۔۔
کہ مدینے کا ریلوے اسٹیشن آگیا تھا۔۔
جہاں ایک زمانے میں مدینے تک ایک ٹرین آتی تھی۔۔ترکوں کی تعمیر کردہ۔۔اور پھر ترکوں کے جبر سےنالاں عربوں کی سربراہی کرتے ہوئے لارنس آف عریبیہ نے ریل کی پٹڑیوں کو اکھارکر تباہ کردیاتھا۔۔
یہ ریلوے اسٹیشن اب دوبارہ اپنی اصلی حالت کے مطابق پھر سے تعمیر کیا جارہا ہے۔۔زنگ آلوداورناکارہ ہوچکی پٹڑیوں پر ان زمانوں کی ریل کے چند ڈبے ابھی تک کھڑے تھے۔۔
اور مجھے اس متروک ریلوے اسٹیشن نے کیسے مسخرکیا۔۔اس کے ماتھے پرمنزل کااعلان کرنے والاایک حرف اب بھی پڑھا جاسکتاتھا۔۔“مدینہ“۔۔
اگرآپ ایک ٹرین میں سفر کررہے ہوں۔۔اورسفرکے دوران ایک اسٹیشن پر وہ ٹرین رکتی ہےاور آپ اپنے ڈبے میں سے سر نکال کر دن کی دھوپ میں یا رات کی سیاہی میں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم کہاں رکے ہیں۔۔یہ کون سا اسٹیشن ہےتو عمارت کے ماتھے پرلکھا“مدینہ“نظرآتا ہے تو اس کےبعد کیا کچھ اور نظر آسکتاہے۔۔
مدینے کا ریلوے اسٹیشن۔۔جہاں اب کوئی گاڑی آتی ہے اور نہ جاتی ہے۔۔
اور ویران پلیٹ فارم پر ایک تنہا مسافر کھڑا ہے۔۔
وہ جا تو کہیں اور رہا تھالیکن عمارت پر “مدینہ “ لکھا نظر آیا تو ٹرین سے اُتر گیا۔۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ اے مسافر کیسے آئے ہو؟
تو وہ کہتا ہے کہ ٹرین سے۔۔
اور وہ حیرت سے اور اسے دیوانہ جانتے ہوئے کہتے ہیں۔۔یہ پلیٹ فارم تو ایک مدت سے ویران پڑا ہے۔۔نہ کوئی آیانہ گیا۔۔تم کیسے آگئے۔۔
تو وہ جواب دیتا ہے۔۔مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ میں کیسے آیاہوں۔۔لیکن یہ معلوم ہے کہ آگیاہوں تو اب جانا نہیں چاہتا۔۔
“روشن جمالِ یار سے ہے انجمن تمام“
منہ ول کعبے شریف
مستنصر حسین تارڑ
Bookmarks