محمد فیصل
ہم جانتے ہیں کہ تمام کائناتی اجسام ایک دوسرے کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ زمین چاند کو کھینچتی ہے جس کی وجہ سے وہ اس کے گرد گھومتا رہتا ہے، اسی طرح چاند کی کشش بھی زمین پر اثر انداز ہوتی ہے جس سے سمندروں میں مدوجزر پیدا ہوتا ہے۔1687ء میں سائنس دان نیوٹن نے اس کشش کی نشاندہی کی تھی۔ انہوں نے اسے کشش ثقل کا نام دیا اور بتایا کہ کائنات کا ہر جسم ایک خاص قوت کے ذریعے دوسرے کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔ 1916ء میں شہرۂ آفاق سائنس دان آئن سٹائن نے پہلی مرتبہ ثقلی لہروں کی موجودگی کا انکشاف کیا۔ اگرچہ ریاضیاتی حوالے سے کشش ثقل اور اس کی ان موجوں کی موجودگی ثابت تھی تاہم یہ موجیں کبھی دیکھی، سنی یا محسوس نہیں کی جا سکی تھیں۔حال ہی میں سائنس دانوں نے دو بلیک ہولز کے باہمی ٹکراؤ سے زماں ومکاں میں تبدیلی محسوس کی ہے جس سے ناصرف کشش ثقل کی موجودگی کا تجرباتی ثبوت مل گیا ہے بلکہ سائنس دان ثقلی لہروں کی آواز سننے میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔ سائنس دان کئی سال سے کشش ثقل کی لہروں کو تجربہ گاہ میں محسوس کرنے اور ماپنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ اس سلسلے میں دنیا کے مختلف ممالک میں خاص تجربہ گاہیں بنائی گئیں جہاں کائنات میں بڑے اجسام کے ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی لہروں کو ریکارڈ کرنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ امریکی ریاست واشنگٹن اور لوزیانا میں قائم ایسی تجربہ گاہوں میں ایک ارب 30 کروڑ نوری سال دور دو بلیک ہولز کے مابین ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی لہروں کے اثرات محسوس کیے گئے اور حساس آلات پر ثقلی لہروں کی آواز بھی ریکارڈ کر لی گئی ۔ سائنس دان کہتے ہیں کشش ثقل کی لہریں وہ واحد ممکنہ ذریعہ ہو سکتی ہیں جن سے ہمیں کائنات کی ابتدا کے بارے میں پتا چل سکتا ہے۔ ان لہروں کی نشاندہی سے علم فلکیات میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ اس تجربے سے کشش ثقل اور ثقلی موجوں کے بارے میں آئن سٹائن کا نظریہ تجرباتی طور پر درست ثابت ہو گیا ہے۔آئن سٹائن نے بتایا تھا کہ کشش ثقل بذات خود مادی چیزوں کے اندر یا باہر کسی قوت کا نام نہیں ہے بلکہ یہ کائناتی اجسام کے گرد زماں و مکاں کی خمیدگی ہے۔ باالفاظ دیگر زمین چیزوں کو اپنی طرف نہیں کھینچتی بلکہ زمین کے گرد زماں ومکاں میں پڑنے والا خم چیزوں کو زمین کی طرف دھکیلتا ہے۔ آئن سٹائن کے مطابق تمام مادی اجسام زماں و مکاں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اس میں خم پیدا کر دیتے ہیں۔ جسم جس قدر بڑا ہو گا اسی قدر زیادہ خم پیدا کرے گا۔ گویا اجسام اپنے مادے کی مقدار کے حساب سے زمان و مکاں کی سطح میں ایک گڑھا بنا دیتے ہیں اور اردگرد کے چھوٹے مادی اجسام زمان و مکاں کے اس گڑھے کی جانب کھنچنے لگتے ہیں چنانچہ ہمیں یوں لگتا ہے کہ بڑا جسم چھوٹے اجسام کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔ یہ خم پیدا ہونے سے جب کوئی جسم دوسرے کی جانب حرکت کرتا ہے تو زمان و مکاں کی چادر پر لہریں بنتی ہیں جنہیں ثقلی لہریں کہا جاتا ہے۔ممتاز سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے کہا ہے کہ اس دریافت کے بعد کائنات کو ایک نئے انداز سے دیکھنے کی راہ ہموار ہوگی اور بلیک ہولز کا مشاہدہ بھی ممکن ہو جائے گا۔ ٭…٭…٭
Bookmarks