حفیظ احمد… ایک عہد ساز سکرپٹ رائٹر اور ہدایت کار انہوں نے پنجابی فلموں کو نئی عظمتوں سے سرفراز کیا
،
عبدالحفیظ ظفر
اس بات سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان میں ہر دور میں بڑی معیاری پنجابی فلمیں بنائی گئیں اور یہ پنجابی فلمیں باکس آفس پر بھی بے حد کامیاب ہوئیں۔ ان میں تو کئی ایسی فلمیں بھی تھیں جنہوں نے فلمسازوں پر دولت کی بارش کردی۔ سینما مالکان نے بھی ان فلموں کی بدولت بہت دولت کمائی۔ ان پنجابی فلموں کی کامیابی کا کریڈٹ کسی ایک شخص کو نہیں دیا جاسکتا بلکہ یہ مکمل ٹیم ورک کا نتیجہ تھا۔ اس کے علاوہ ان فلموں کی موسیقی اور نغمات بھی لاجواب ہوتے تھے۔ افسوسناک بات یہ تھی کہ جب بھی ان فلموں کی بے مثال کامیابی کا ذکر ہوتا تھا تو صرف ہدایتکار ، اداکار اور موسیقار کا نام لیا جاتا تھا لیکن فلم کے کہانی کار اور سکرپٹ رائٹر کو نظرانداز کردیا جاتا تھا۔ حزیں قادری وہ سکرپٹ رائٹر، مکالمہ نگار اور نغمہ نگار تھے جنہوںنے سب سے پہلے فلم کے اس شعبے میں کام کرنے والوں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ بلاشبہ حزیں قادری پاکستانی پنجابی فلموں کے ماتھے کا جھومر تھے۔ ویسے تو انہوں نے کئی فلمی اداروں کی فلموں کیلئے سکرپٹ، نغمات اور مکالمے تخلیق کیے لیکن ایک ادارہ ایسا تھا جس سے ان کی وابستگی اٹل تھی۔ اور وہ تھا بھٹی پکچرز۔ جس کے روح رواں مرحوم عنایت حسین بھٹی تھے۔ عنایت حسین بھٹی کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔ عنایت حسین بھٹی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ذہین اور باصلاحیت لوگوں کی بڑی قدر کرتے تھے۔ وہ حزیں قادری کے بہت بڑے مداح تھے اور انہوں نے ان سے اپنی کئی سپرہٹ فلموں کے سکرپٹ، مکالمے اور نغمات لکھوائے جن میں’’چن مکھناں، سجن پیارا، جند جان‘‘ اور دیگر کئی فلمیں شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عنایت حسین بھٹی کے چھوٹے بھائی کفایت حسین بھٹی المعروف کیفی کو بھی اداکاری کی طرف راغب کرنے میں حزیں قادری کا ہاتھ تھا۔ یہ حزیں قادری تھے جنہوں نے کیفی کو ’’سجن پیارا‘‘ میں پہلی بار اداکاری کرنے کا مشورہ دیا۔ اس سے پہلے کیفی بھٹی پکچرز کی فلموں کی ہدایتکاری کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔ بطور ہدایتکار کیفی نے بہت جلد اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیاتھا۔ پھر ایسا ہوا کہ کیفی کے حزیں قادری سے کچھ اختلافات پیدا ہوگئے اور انہوں نے اپنی اگلی فلم ’’ظلم دا بدلہ‘‘ کا سکرپٹ اور مکالمے ایک اور تخلیق کار سے لکھوائے جس کا نام تھا حفیظ احمد جو 14 جنوری 1943ء کو پیدا ہوئے۔ حفیظ احمد نے ’’ظلم دا بدلہ‘‘ کا سکرپٹ اور مکالمے اتنے شاندار لکھے کہ ان پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے گئے۔ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ان کی فلم ’’ظلم دا بدلہ‘‘ نے پورے ملک میں تہلکہ مچا دیا۔ اس فلم کے مکالمے بھی زبان زد عام ہوگئے۔ اس معرکۃ آلارا فلم کے نغمات اداکار راشد محمود کے والد نازش کاشمیری کے زور قلم کا نتیجہ تھے۔ دراصل اس فلم کو دیکھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ حفیظ احمد نے لوگوں کی سوچ کے ٹھہرے ہوئے پانی میں پتھر پھینکا ۔ ’’ظلم دا بدلہ‘‘ کا شمار ویسے بھی پاکستان کی اعلیٰ ترین پنجابی فلموں میں ہوتا ہے۔ حفیظ احمد نے اس کے بعد ’’دھرتی دے لعل‘‘ جیسی فلم لکھی۔ اس فلم کا موضوع بھی کمال کا تھا۔ انہوں نے اپنی فلموں کیلئے ہمیشہ غیر روایتی موضوعات کا انتخاب کیا۔ حفیظ احمد اپنی طبیعت اور مزاج کے حوالے سے اپنے ہم عصروں سے بالکل مختلف تھے۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے آشنا ہوں گے کہ حفیظ احمد نے اردو میں اثرانگیز شاعری کی جس میں جدید طرزِ احساس پوری شدت کے ساتھ نظر آتا ہے۔ ان کے شعری مجموعے ’’محبت کی بازیافت‘‘ کا مطالعہ کرکے قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اگر وہ اردو شاعری پر تھوڑی سی توجہ اور دیتے تو اس میدان میں بھی ان کا فن اوج کمال کو پہنچ جاتا۔ ان کے مندرجہ ذیل دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔ وہ ایک خیال جو سطح شعور پر ابھرا وہیں پہ شدت احساس بن کے نقش ہوا وحشت دل درد کے صحرا میں لے آئی حفیظؔ سوچ کا سورج غموں کے زہر میں بجھنے لگا حفیظ احمد بڑے وسیع القلب اور وسیع النظر انسان تھے۔ ان کی قوت مشاہدہ بھی غضب کی تھی۔ وہ پسے ہوئے طبقات کمے حقوق کیلئے صدا بلند کرتے رہتے تھے۔ ان کی فلموں نے لوگوں کو طبقاتی شعور سے بہرہ ور کیا۔ جبر اور مایوسیوں کے اندھیروں میں بھی انہوں نے امید کے چراغوں کو روشن رکھا۔ وہ رجائیت پسند تھے، ایسی رجائیت جس کے چمن میں حیات رقص کرتی تھی۔ انہوں نے ہمیشہ جبروستم، استعمار، جاگیرداری اورناانصافی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ وہ حقوق نسواں کے بہت بڑے علمبردار تھے اور انہوں نے ہمیشہ عورتوں کے احترام کومقدم جانا۔ ان کی فلموں میں ہیرو انتقام کی آگ میں جلتا ہوا دشمنوں کو نیست و نابود کرتا ہوا نظر نہیں آتا بلکہ ان کا ہیرو انصاف کیلئے سردھڑ کی بازی لگاتا ہے۔ جس دور میں حفیظ احمد نے پنجابی فلمیں لکھیں ان میں پنجابی ثقافت بھرپور طریقے سے دکھائی دیتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب احمد راہی، بابا جی اے چشتی، حزیں قادری، بابا عالم سیاہ پوش ،وارث لدھیانوی اور کئی دوسرے بے بدل فنکاروں نے اپنی عظمت کے نقوش چھوڑے۔ ان لوگوں کی خدمات فقط شاندار نہیں بلکہ ناقابل فراموش ہیں۔ آج کی نوجوان نسل جو آرٹ اور ادب سے شغف رکھتی ہے، اسے اپنے ان اسلاف کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہئیں کیونکہ ان کا کام مثالی ہے۔ حفیظ احمد نے کچھ فلموں کی ہدایات بھی دیں جن میں ’’گنگو پتر ماں دا اور برکت مجھٹیا‘‘ کے نام لئے جاسکتے ہیں۔’’برکت مجھٹیا‘‘ انگریزی استعمار کے خلاف مزاحمت کی چٹان تھا۔ ’’ملنگی‘‘ اور ’’نظام لوہار‘‘ کی طرح پنجاب کے اس جوان رعنانے بھی آزادی کی جنگ میں اپنا حصہ ڈالا۔ حفیظ احمد ایک صاحب احساس اور خوددار شخص تھے۔ انہوں نے کوئی کہانی کسی پروڈیوسر یا ڈائریکٹر کی فرمائش پر نہیں لکھی بلکہ مشکل ترین حالات میں بھی انہوں نے اپنے فکروفن سے روگردانی نہیں کی اور اپنے نظریات پر ڈٹے رہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے حلقۂ احباب میں ہر طبقۂ فکر کے لوگ شامل تھے۔وہ اکثر یہ کہا کرتے کہ پاکستانی سینما کی بقاء کی ایک ہی صورت ہے کہ وہ روایتی موضوعات کی دلدل سے باہر نکل آئے اور جدید تقاضوں کے مطابق اپنی راہ متعین کرے۔ ان کی ایک فلم ’’منڈے توبہ توبہ‘‘ بھی تھی جو بدقسمتی سے ریلیز نہ ہوسکی۔ وہ اپنی آپ بیتی لکھنے کا بھی ارادہ رکھتے تھے لیکن زندگی نے انہیں مہلت نہ دی۔ 30نومبر2010ء کو باغیانہ خیالات کا حامل یہ شخص اس دارفانی سے کوچ کر گیا۔ بے شک وہ آج ہم میں موجود نہیں لیکن ان کے فن کا سورج کبھی غروب نہیں ہوسکتا۔ ٭…٭…٭
Bookmarks