گِرا ہوں شجر سے اُڑا چاہتا ہوں
پئے رقص، لطفِ ہوا چاہتا ہوںوہی جو منگیتر سا ہے مجھ سے، مخفیوہ منظر، نظر پر کھُلا چاہتا ہوںسبھی ناؤ والے ہیں، اِک میں نہیں ہوںکہ تنکے کا جو، آسرا چاہتا ہوںگریزاں ہوں ابنائے قابیل سے میںکہ شانوں پہ یہ سر، سجا چاہتا ہوںوہی شہ رگوں میں جو پنہاں ہے، اُس کاسرِ طُور کیوں سامنا چاہتا ہوں(ق)گوارا ہو بے ناپ خلعت مجھے کیوںجو زیبا مجھے ہو قبا چاہتا ہوںنہیں چاہتا تاج میں پاپیادہمیں توقیر، حسبِ انا چاہتا ہوںلگے جیسے پہرے ہوں ہر اور میریکہوں کس سے ماجدؔ، میں کیا چاہتا ہوں٭٭٭
Bookmarks