حیدر قریشی
اگلے روز ایک شاپنگ سنٹر پر خریداری کرتے ہوئے میری دو واقف خواتین سے ملاقات ہوئی تو مجھے پہلی بار ایک حیرت انگیز حقیقت سے آشنائی ہوئی۔ ان میں سے ایک خاصی خوبصورت خاتون تھی اور ایک نہایت بد صورت لیکن برقع پہننے کا انداز اور آدھے نقاب کا کمال تھا کہ خوبصورت خاتون تو پہلے سے بڑھ کر خوبصورت لگ رہی تھی۔ بد صورت خاتون بھی حیرت انگیز طور پر خوبصورت دکھائی دے رہی تھی۔ تب میں نے پہلی دفعہ نقاب کے بارے میں غور کیا تو مجھ پر منکشف ہوا کہ نقاب نہ صرف حسن کو مزید نکھارتا ہے بلکہ عیوب کو ڈھانپ کر ان میں بھی ایک حسن پیدا کر دیتا ہے۔ مزید غور کرنے پر مجھے انسانی ذہن اور خواتین کے نقاب کے ارتقاء کی کہانیاں ایک دوسرے سے مربوط نظر آنے لگیں۔ شٹل کاک برقع اس دور کی بات ہے جب انسان خود کو اور کائناتی رموز کو جاننے کے لئے سرگرداں ہونے لگا تھا۔ پھر جب ریشمیں برقع پورے نقاب کے ساتھ آیا تو انسان اپنی ذات اور کائنات کی گتھیاں جان چکا تھا اور انہیں سلجھانے میں مشغول تھا۔ ریشمیں برقع پورے نقاب سے آدھے نقاب تک آیا تو انسان بھی حیرت انگیز انکشافات اور ایجادات کے دور میں آ گیا۔ جوں جوں خواتین کا نقاب ارتقاء کے مرحلے طے کرتا جائے گا، انسانی ذہن بھی اپنی اور کائناتی دریافت کے عمل میں اسی رفتار سے آگے بڑھتا جائے گا۔ ویسے دنیا میں ہر شخص نے ایک نقاب اوڑھ رکھا ہے۔ تاجر، ادیب، پنڈت، افسر، ملازم ، دکاندار، خریدار، سیاستدان …کیا یہ سب لوگ بظاہر جیسے نظر آتے ہیں حقیقتاً ویسے ہیں؟ یہ سب لوگ محبت ، خلوص، ایمان اور دیانت وغیرہ کے نقاب اوڑھ کر نفرت اور ریاکاری کے کھیل کھیلتے ہیں لیکن ان کے نقابوں نے ان کے عیوب کو ڈھانپ رکھا ہے۔ انسانی چہرہ بجائے خود ایک نقاب ہے جس میں سے کبھی کبھی اس کے اندر کا حیوان جھانکتا ہوا نظر بھی آ جاتا ہے۔ (اندر کا فرشتہ تو اکثر چہرے پر ہی ملتا ہے) کون ہے جو کسی دوسرے انسان کو پوری طرح جاننے کا دعویٰ کر سکے۔ انسان دوسروں کے لئے تو نقاب میں ہے ہی، خود اپنے لئے بھی و ہ نقاب میں ہے۔ کوئی انسان آج تک خود کو پوری طرح نہیں دیکھ سکا نہ ہی تا حال کوئی ایسا آئینہ دریافت ہو سکا ہے جو انسان کے اندر کے سارے بھید اس پر کھول سکے۔ اسی لئے تو سلطان با ہو نے کہا ہے۔ ’’دلِ دریا سمندروں ڈونگھے، کون دلاں دیاں جانے ہو‘‘
Bookmarks