احمد عقیل روبی
گستائو فلابئیر19ویں صدی کا نامور فرانسیسی ناول نگار تھا،اس کی تحریروں کو رومانویت پسندی اور حقیقت نگاری کا امتزاج کہا جاتا ہے۔ مادام بواری اس کا سب سے مشہور ناول ہے، جس پر بنی فلم بھی بہت مشہور ہوئی، ہمارے ہاں یہ فلم میڈم باوری کے نام سے ریلیز ہوئی تھی۔ فلابئیر کے ناول مادام بواری پر بات کرتے ہیں، مگرفلابئیر کی اپنی زندگی بھی کسی ڈرامائی ناول سے کم نہیں تھی۔ اس کا باپ پیرس کے قریب ایک گائوں کے ہسپتال میں ڈاکٹر تھا۔ فلابئیر اسی گائوں میں 1821ء کو پیدا ہوا، ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی، پیرس وہ قانون پڑھنے گیا، ادیبوں سے دوستیاں ہوئیں، جن میں وکٹر ہیوگو بھی شامل تھا۔ اس نے سیر وسیاحت میں بھی بہت وقت صرف کیا۔ ایک شاعرہ لوسی کولٹ سے طوفانی قسم کا عشق کیا مگر شادی نہ کر سکا۔ یہ لوسی کولٹ خود بھی ایک متنازع کردار تھی۔ لوسی ایک موسیقار (Colet) کی بیوی اور پیرس کے ادبی حلقوں میں بہت مشہور تھی۔ فلابیئر سے وہ پانچ سال بڑ ی تھی۔پہلی بار ملنے کے بعد 24 گھنٹے کے اندر اندر فلابیئر اس پر عاشق ہو گیا۔ لوسی کولٹ شاعروں اور ادیبوں کے لیے ایک جاذبِ نظر شخصیت تھی۔ اس سے مل کر شاعر اور ادیب بڑی تخلیقی طاقت حاصل کرتے تھے۔ یہی فلابیئر کے ساتھ ہوا۔ لوسی کولٹ خود بھی فلابیئر سے مل کر اس کی گرویدہ ہو گئی۔ فلابیئر نے اپنی ماں کے پاس (Croisset) جاتے ہی لوسی کو ایک طویل محبت بھرا خط لکھا اور پھر دونوں میں خطوط نویسی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور باقاعدہ عشق کا سلسلہ چل نکلا۔ لوسی کولٹ چاہتی تھی کہ فلابیئر پیرس آ کر رہنا شروع کر دے مگر اسے یہ بات قبول نہیں تھی۔ فلابیئر کی ماں کو بھی یہ بات پسند نہیں تھی۔ لوسی کولٹ کی بیماریاں خاص طور پر مرگی کی بیماری نے اس کی ماں کو پریشان کر رکھا تھا۔ وہ ہر وقت اس کے اردگرد منڈلاتی رہتی تھی۔ لوسی کولٹ کے ساتھ فلابیئر کے تعلقات دو تین سال رہے۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ لوسی سے صرف چھ بار مل سکا۔ ایک بار وہ اسے Croisset ملنے آئی جو شاید آخری ملاقات تھی۔ لوسی کولٹ کا خاوند فوت ہوا تو لوسی شدت سے فلابیئر کو پیرس آکر رہنے پر زور دینے لگی۔ وہ انکار کرتا رہا‘ لوسی کولٹ کو یہ بات بہت کھلتی تھی۔ اس نے ایک بار فلابیئر سے کہا: ’’تمہاری ماں تمہاری ایک کنواری لڑکی کی طرح رکھوالی کرتی ہے۔ نہ تم پیرس میں قیام کرتے ہو نہ مجھے ملنے آتے ہو۔ شاید تم مجھ سے محبت نہیں کرتے۔‘‘ فلابیئر نے اسے جواب میں لکھا: ’’محبت تو کرتاہوں لیکن میں محبت کو زندگی میں پہلی نہیں دوسری حیثیت دیتا ہوں۔‘‘ فلابیئر لوسی کولٹ کی محبت سے فارغ ہو کر اپنے پہلے باقاعدہ ناولLa Tentation Estantoine، جس کا انگریزی عنوان (The Temptation of St. Antony)کی طرف متوجہ ہوا۔ جب یہ ناول مکمل ہو گیا تو اس نے اپنے دوستوں میکسم کیمپ اور (Bouilhet) کو اپنے پاس بلوایا اور مسلسل چار دن یہ ناول پڑھ کر سنایا۔ آخری دن وہ ساری رات ناول پڑھتا رہا اور دونوں دوست خاموشی سے سنتے رہے۔ ان کی طرف دیکھ کر فلابیئر نے میز پر ایک زور دار مکہ مارا اور کہا: ’’اب کہو۔ تم کیا کہتے ہو‘‘ دونوں دوستوں نے بیک زبان کہا: "We think you outh to throw it on the Fire and not Speak of it Again" دونوں دوستوں کی یہ بات سن کر فلابیئر سیخ پا ہو گیا۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ اپنے ناول کے لیے کوئی ایسا موضوع تلاش کرو جو روز مرہ زندگی کے قریب ہوں جس کے کردار عام زندگی سے تال میل رکھتے ہوں۔ یہ مشورہ سن کر وہ دوستوں کے ساتھ پھر سیاحت پر چلا گیا۔ 1850ء میں واپس آ کر اس نے ’’مادام بواری‘‘ پر کام شروع کر دیا۔ اس پر اس نے پانچ سال صرف کئے اور یہ اس کی تخلیقی زندگی کا ایک شاندار کارنامہ ثابت ہوا۔ مادام بواری کی کامیابی کے بعد اس نے بقول اس کے اپنے لافانی شاہکار پر کام شروع کیا۔ یہ اس کا ناول سلیمبو تھا۔ جس میں اس نے (Carthage) کے تمام سفری تجربات شامل کر دئیے۔ اس کتاب کو اس نے 1862ء میں شائع کیا لیکن اسے مادام بواری جیسی پذیرائی نہ ملی۔ اپنا ناولSentimental Education اس نے سات سال میں مکمل کیا۔ ’’تین کہانیاں ‘‘ کے نام سے اس کی کتاب 1877ء میں چھپی۔ فلابیئر کی آخری کتاب Bouvard et Pecuchet جسے وہ اپنی اعلیٰ ترین تخلیق کہتا تھا، اس کی موت کے بعد چھپی۔ یہ انسانی دانش اور علم پر بہت بڑا طنز تھی۔ اس پر بہت بُرے تبصرے ہوئے اور یہ کتاب نقادوں کی بے توجہی کا شکار ہو کر رہ گئی۔ فلابیئر بڑے زرخیز ذہن کا مالک تھا۔ وہ بیک وقت مختلف School of Thoughts کا پرچارک تھا۔ بحیثیت مصنف وہ رومانویت پسند بھی تھا اور حقیقت نگار بھی۔ حقیقت نگاری نے فلابیئر کی تحریروں ہی سے ابتدائی سفر شروع کیا۔ اس نے اپنے اسلوب کو نکھارنے کے لیے بہت محنت کی۔ کبھی کبھی تو وہ ایک صفحے پر دو دو ہفتے محنت کرتا تھا۔ اس کے خطوط پڑھ کر دیکھ لیں تو پتا چلتا ہے کہ اس نے اپنا اسلوب بنانے کے لیے کتنی جانفشانی سے کام کیا۔ ایک نقاد اس کے بارے میں کہتا ہے: "His style was achieved through the unceasing sweat of his brow" اس کے اسلوب نے اپنے بعد آنے والے ناول نگاروں کو بے حد متاثر کیا۔ اس فہرست میں موپساں، زولا، ترگنیف، سارتر اور کافکا کے نام نمایاں ہیں۔ مشہور نقاد جمیزوڈ (James Wood) اپنی کتاب How Fiction Works میں کہتا ہے: "Novelists Should Thank Flaubert the way poets thank spring" فلابیئر کے قریبی دوست مصنف میکسم کیمپ کا خیال تھا کہ فلابیئر نے اپنے آپ کو Croissetکے مقام پر قید کر کے اپنے تجربات اور مشاہدات کو محدود کر لیا ہے۔اسے پیرس میں آکر رہنا چاہیے تھا تا کہ لوگوں سے مل کر زندگی کا وسیع تجربہ حاصل کرتا اور اپنے ناولوں کے لیے مواد حاصل کرتا۔ وہ دنیا کے بارے میں بہت کم جانتا تھا۔ اس نے ساری زندگی اپنی ماں کی گود میں گزاردی۔ اگر کبھی نکلا بھی تو لوسی کے پاس چلا گیا لیکن اس سے ہاتھ چھڑا کر پھر ماں کے پاس چلا آیا۔ کیمپ نے لوسی کو خط میں لکھا: ’’فلابیئر چار سال میں احمق بن جائے گا۔‘‘ فلابیئر نے اس بات کا بہت برا منایا اور جواب دیا کہ وہ جو زندگی گزار رہا ہے اس کے لیے موزوں ہے اور وہ اس زندگی سے مطمئن ہے۔ فلابیئر نے اسی زندگی سے اپنے ناولوں کا مواد اکٹھا کیا اور ’’مادام بواری‘‘ جیسا عظیم ناول لکھ دیااور کیمپ نے اس ناول کو قسط وار رسالے (Revue de Paris) میں شائع بھی کیا۔ ’’مادام بواری‘‘ چھپ کر مارکیٹ میں آئی تو پبلشر اور مصنف دونوں کو عدالت میں بلا لیا گیا۔ ناول پر بہت لے دے ہوئی۔ فلابیئر نے اس ناول میں فرانس کی سوسائٹی اور اس میں رہنے والوں کو بے نقاب کیا ہے۔ مادام بواری ایک عورت کی بدکاریوں کی داستان ہے جو آخر میںایک برے انجام سے دو چار ہوتی ہے۔عدالت نے وکیل صفائی کے ان دلائل سے متاثر ہو کر پبلشر اور مصنف کو با عزت بری کر دیا اور ’’مادام بواری‘‘ کو ساری دنیا نے فلابیئر کا ایک شاہکار تسلیم کر لیا۔ فلابیئر کے اس ناول کو شروع شروع میں لوگوں نے سمجھا نہیں لیکن مقدمہ ختم ہوتے ہی اسے عظیم شاہکار تسلیم کر لیا گیا۔ فلابیئر کے اسلوب اور اس کی بھرپور فنی صلاحیت کے سامنے سب نے سر جھکا دئیے۔ مشہور نقاد شاعر ایذرا پائونڈ نے تو یہاں تک کہہ دیا: ’’جو فلابیئر کی نثر سے واقف نہیں، جس نے ’’مادام بواری‘‘ کا مطالعہ نہیں کیا وہ نہ اچھی شاعری کر سکتا ہے نہ اچھی نثر لکھ سکتا ہے…‘‘ ایک نقاد نے زور دے کر کہا: ’’اگر فلابیئر نہ ہوتا تو موپساں بھی نہ ہوتا۔ موپساں فلابیئر کو پڑھ کر ہی موپساں بنا‘‘
Bookmarks