دوسروں کے واسطے جیا تھا مر گیا
وہ بڑوں کو جو بڑا کچھ اور کر گیاجگنوؤں تلک کی روشنی لگے فریبرہبروں سے ہُوں کچھ اِس طرح کا ڈر گیاناز تھا کہ ہم سفیرِ انقلاب ہیںپر یہ زعم بھی نشہ سا تھا اُتر گیاخانۂ خدا سے بُت جہاں جہاں گئےبار بار میں نجانے کیوں اُدھر گیاپاؤں کے تلے کی خاک نے نگل لیامیں تو تھا کنارِ آب باخبر گیالعل تھا اٹا تھا گرد سے، پہ جب دھُلاماجدِ حزیں کچھ اور بھی نکھر گیا٭٭٭
Bookmarks