ریا کی زد پہ ہے کب سے اسے سنبھلنے دو
رگوں سے شہر کی، فاسد لہو نکلنے دو
جو اُن کے جسم پہ سج بھی سکے مہک بھی سکےرُتوں کو ایسا لبادہ کوئی بدلنے دوکسی بھی بام پہ اب لَو کسی دئیے کی نہیںچراغِ چشم بچا ہے اسے تو جلنے دوبچے گا خیر سے شہ رگ کٹے پہ بسمل کیاذرا سی ڈھیل اِسے دو، اِسے اُچھلنے دوچلن حیات کا ماجدؔ بدل بھی لو اپناجو سر سے ٹلنے لگی ہے بلا وہ ٹلنے دو٭٭٭
Bookmarks