زچ ہوئے پر جو ذرا سا تھا بدل جانے لگا
وہ ستمگر پھر ڈگر پہلی سی اپنانے لگابچ کے پچھلے دشت میں نکلے تھے جس کے سِحر سےپھر نگاہوں میں وہی اژدر ہے لہرانے لگاکر کے بوندوں کو بہ فرطِ سرد مہری منجمددیکھ لو نیلا گگن پھر زہر برسانے لگاجُود جتلانے کو اپنی شاہ ہنگامِ سخاعیب کیا کیا کچھ نہ ناداروں کے دِکھلانے لگاسُرخرُو اس نے بھی زورآور کو ہی ٹھہرا دیاحفظِ منصب کو ستم عادل بھی یہ ڈھانے لگادل میں تھا ماجدؔ جو سارے دیوتاؤں کے خلافاب زباں پر بھی وہ حرفِ احتجاج آنے لگا٭٭٭
Bookmarks