اب کے چلن ہوا کا غضب اور ڈھائے گا
موسم جو آئے گا وہ قیامت کا آئے گا
جو لٹ چکے ہیں اشک سمیٹے گا اُن کے اور
رہبر اُنہی سے دیکھنا! گوہر بنائے گا
وہ ناخدا کہ طاق ہے جو حفظِ ذات میں
ڈولی ذرا جو ناؤ تو خود کُود جائے گا
جو لفظ اُس کے عجز کے باعث سبک ہوئے
مختار کیا بھلا اُنہیں حُرمت دلائے گا
بینا ہیں جو اُنہیں بھی، مسیحائے نابکار
لگتا ہے یوں، سفید چھڑی دے کے جائے گا
ماجد شکارِ خبث ہے جو، تُو بھلا اُسے
لطفِ زبان و لب سے کہاں تک سِدھائے گا
٭٭٭