پڑے ہیں دیکھنے کیا کربِ آشکار کے دن
زوالِ عمر کے دن، ٹُوٹتے خمار کے دنبنامِ کم نظراں، لطفِ لمحۂ گزراںہمارے نام نئی رُت کے انتظار کے دنبدن سے گردِ شرافت نہ جھاڑ دیں ہم بھیلپک کے چھین نہ لیں ہم بھی کچھ نکھار کے دنطویل ہوں بھی تو آخر کو مختصر ٹھہریںچمن پہ رنگ پہ، خوشبو پہ اختیار کے دننئے دنوں میں وہ پہلا سا رس نہیں شایدکہ یاد آنے لگے ہیں گئی بہار کے دنفلک کی اوس سے ہوں گے نم آشنا کیسےزمین پر جو دھوئیں کے ہیں اور غبار کے دنیہ وقت بٹنے لگا ناپ تول میں کیونکریہ کس طرح کے ہیں ماجدؔ گِنَت شُمار کے دن٭٭٭
Bookmarks