جو آنکھیں دیکھتی ہوں دھُند کے اُس پار، کم کم ہیں
یہاں اہلِ نظر تو ہیں بہت، بیدار کم کم ہیںبھسم کرنے کو آہن، کام میں لایا گیا کیا کیافلاحت اور زراعت کے مگر اوزار کم کم ہیںسمجھ بیٹھے ہیں جب سے اصلِ حرصِ خوش خصالاں ہمکسی بھی صورتِ حالات سے بے زار کم کم ہیںشکم جب سے بھرا رہنے لگا ہے چھِینا جھپٹی سےوہ کہتے ہیں یہی ، نگری میں اب نادار کم کم ہیںفروغِ تیرگی بھی دم بہ دم ماجِد فراواں ہےنگر میں جگنوؤں کے پاس بھی انوار کم کم ہیں٭٭٭
Bookmarks