چہرۂ سرو قداں پر داغِ ندامت ٹھہرے
بَونے بانس لگا کر صاحبِ قامت ٹھہرےاُس کے لیے جو خود شامت ہے بستی بھر کیجانے کونسی ساعت، ساعتِ شامت ٹھہرےجس کے طلوع پہ خود سورج بھی شرمندہ ہےاور وہ کون سا دن ہو گا جو قیامت ٹھہرےاہلِ نشیمن کو آندھی سے طلب ہے بس اتنیپیڑ اکھڑ جائے پر شاخ سلامت ٹھہرےکون یزید کی بیعت سے منہ پھیر دکھائےکون حسین ہو، دائم جس کی امامت ٹھہرےخائف ہیں فرعون عصائے قلم سے تیرےاور بھلا ماجد کیا تیری کرامت ٹھہرے٭٭٭
Bookmarks