دمِ زوال ، رعونت زباں پہ لائے بہت
چراغ بجھنے پہ آئے تو پھڑپھڑائے بہتیہی تو ڈُوبتے سُورج کا اِک کرشمہ ہےبڑھائے قامتِ کوتاہ تک کے، سائے بہتقلم کے چاک سے پھوٹے وہ، مثل بیلوں کےجو لفظ ہم نے زباں کے تلے دبائے بہتستم ستم ہے کوئی جان دار ہو اُس کونگل کے آب بھی اِک بار تھرتھرائے بہتہمارے گھر ہی اُترتی نہ کیوں سحر ماجدتمام رات ہمِیں تھے جو کلبلائے بہت٭٭٭
Bookmarks