ایسا نہیں کہ تم ہی ہمارے نہیں رہے

ہم لوگ بھی حضور تمہارے نہیں رہے
تنہا کیے عبور سبھی فاصلوں کے دشت
زندہ کبھی کسی کے سہارے نہیں رہے
لڑنا پڑا ہمیں بھی ہر اِک موج سے وہاں
جب اپنی دسترس میں کنارے نہیں رہے
اچھے دِنوں میں ساتھ تھے جو سائے کی طرح
مشکل میں ساتھ وہ بھی ہمارے نہیں رہے
بس اَب تو اُس کی یاد کی قندیل گُل کرو
شب جا چکی فلک پہ ستارے نہیں رہے
جانِ صفیؔ کریدتے ہو راکھ کس لیے
دِل بجھ چکا ہے اَب وہ شرارے نہیں رہے
٭٭٭