بھول میری قبول کی اُس نے

نقد قیمت وصول کی اُس نے
کس کی چاہت تھی اُس کے سینے میں
بات جب با اُصول کی اُس نے
چاہیے اُس کو سب کی ہمدردی
اپنی صورت ملول کی اُس نے
دل نہیں مانتا کسی کی بھی
بحث ساری فضول کی اُس نے
کیسے ہنس کر صفیؔ مری خواہش
اپنے قدموں کی دھول کی اُس نے
٭٭٭