گو مجھ سے گریزاں تو وہ گلفام بہت تھا
پر شہر میں اُس کے تو مرا نام بہت تھا
کب مجھ کو تمنا تھی کہ بڑھ جائیں مراسم
ملنے مجھے آتا تھا وہ ہر شام بہت تھا
کچھ اِس میں بھی رہتا تھا تعلق کا گماں سا
اِلزام بھی آتا تھا تو اِلزام بہت تھا
مجھ کو بھی بجھا کر وہ پشیمان بہت ہے
جلتا ہوا دیپک مَیں سرِ بام بہت تھا
صیاد نے کس زعم میں کاٹے ہیں مرے پر
میرے لیے زلفوں کا وہی دَام بہت تھا
مشہور ترے شہر میں کتنا ہوا آخر
ملنے سے تمہیں پہلے جو گمنام بہت تھا
٭٭٭



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote

Bookmarks