عبث ہم خاک کے پتلے نِگوں تقدیر کیا کرتے
مقدر میں نہیں تھا جو اُسے تسخیر کیا کرتےنہیں تھا ہاتھ میں جس کے ہمارے درد کا درماںدِکھا کر زخم ہم اپنا اُسے دل گیر کیا کرتےہمارے درمیاں تھا فاصلہ اِک ہاتھ کا لیکنپڑی تھی پاؤں میں رسموں کی جو زنجیر کیا کرتےوہ جو سورج کے ہوتے بھی ترستے تھے اُجالے کومری تاریک راتوں کو عطا تنویر کیا کرتےمقابل گر عدو ہوتے تو ہم ان سے نمٹ لیتےمگر ہم دوستوں پر برہنہ شمشیر کیا کرتےصفیؔ مدحت سرا ہم اُس کے سب اپنی جگہ لیکنوہ خوشبو کا بدن تھا ہم اُسے تصویر کیا کرتے٭٭٭
Bookmarks