زورآور کو ہم وجہِ آزار کہیں، کیا کہتے ہو
دشت میں رہ کر چیتے کو خونخوار کہیں، کیا کہتے ہوبِن شعلوں کے جسموں جسموں جس کی آنچ سمائی ہےبے آثار ہے جو، اُس نار کو نار کہیں، کیا کہتے ہوبہرِ نمونہ کھال جہاں ادھڑی ہے کچھ کمزوروں کیاُس دربار کو جَور کا ہم تہوار کہیں،کیا کہتے ہووہ بے گھر تو اِس رت جا کر اگلی رت لوٹ آتی ہیںسکھ سپنوں کو ہم کونجوں کی ڈار کہیں، کیا کہتے ہویہ تو لہو کے چھینٹوں سے کچھ اور بھی نور بکھیرے گیصبحِ ستم کو ماجد! شب آثار کہیں، کیا کہتے ہو٭٭٭
Bookmarks