اشرف علی
انڈیا آفس لائبریری کے نام سے تقریباً ہر پڑھا لکھا شخص واقف ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے اس کتب خانے کا تنازعہ چلا آ رہا ہے۔ پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے علاوہ برطانیہ بھی اس پر اپنا حق جتاتا ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلو م ہو گا کہ یہ لائبریری کب اور کیوں کر وجود میں آئی تھی اور اسے موجودہ حالات میں اب تک پہنچنے میں کن کن مراحل سے گزرنا پڑا؟ برصغیر سے جو طلبہ اور محققین لندن جاتے ہیں‘ ان میں سے بیشتر طلباء علم کے اس خزانے سے کسی نہ کسی طرح ضرور فیض یاب ہوتے ہیں لیکن شاید کم اہل علم نے اس کتب خانے میں محفوظ جواہر پاروں پر اس انداز سے سوچا ہو کہ یہ ان کے آبائو اجداد کی عزت و ناموس اور ان کی تمنائوں کا نچوڑ ہیں۔ اس لائبریری کا تخیل سب سے پہلے، جس شخص کے ذہن میں آیا، اس کا نام رابرٹ ایڈم تھا۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم تھا اور طویل مدت تک ہندوستان میں رہ چکا تھا۔ اس نے دیکھا کہ مغلیہ حکومت کے زوال کی وجہ سے ہندوستان میں افراتفری پھیلی ہوئی ہے اور علم و ادب کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ کتب خانے خانہ جنگی سے لٹتے جا رہے ہیں۔ ان حالات سے فائدہ اٹھا کر کمپنی کے اکثر ملازمین کتابوں کو کوڑیوں کے مول خرید کر انگلستان لانے لگے۔ ان کتابوں کاچوں کہ یہاں بھی کوئی قدردان نہ تھا، اس لیے رفتہ رفتہ یہ علمی نوادر، ناقدری کی نذر ہونے لگے۔ اس عرصہ کے دوران ہی ایڈم نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹروں کے روبرو یہ تجویز پیش کی کہ برصغیر سے لائے گئے ان جواہر پاروں کے لیے کوئی جگہ مخصوص کر دی جائے جہاں یہ محفوظ رہ سکیں۔ چنانچہ 1789ء میں اس تجویز کو تسلیم کر لیا گیا اور یہاں سے اس کے قیام کی ابتداء ہوئی۔ اس کا لائبریرین مسٹر چارلس ولکنز کو بنایا گیا۔ ولکنز کمپنی کے ملازم کی حیثیت سے مدت تک بنگال میں رہ چکا تھا اور بنگالی، فارسی اور سنسکرت تینوں زبانوں میں مہارت رکھتا تھا۔ ولکنز کی ذہانت اور کوششوں سے بنگلہ، ناگری اور فارسی حروف کے ٹائپ بھی تیار ہو گئے تھے۔ چنانچہ اٹھارہویں صدی کے آخر میں بنگالی میں ان تینوں زبانوں کی کتابیں ٹائپ میں چھپنا شروع ہو گئی تھیں۔ ولکنز نے لائبریری کا نیا خاکہ پیش کیا۔ اس خاکے میں کتب خانے کے علاوہ ایک میوزیم کا نقشہ بھی درج تھا جس کے تین حصے تجویز کیے گئے تھے۔ پہلے حصہ میں ہندوستان کے تمام حیوانات، نباتات اور معدنیات کے نمونے رکھنے کی تجویز تھی جب کہ دوسرے حصے میں ہندوستان کی مصنوعات اور تیسرے حصہ میں عہد قدیم کے تاریخی نوادرات کو جمع کرنے اور انہیں محفوظ رکھنے کی تجویز شامل تھی۔ 1805ء میں گورنر جنرل ہندوستان کو لکھا گیا کہ تمام اچھے مسودے، کتابیں، پرانے سکے اور فنون لطیفہ کے نمونے کلکتہ میں رکھنے کے بجائے لندن بھیجے جائیں۔ اس کے علاوہ گورنر جنرل سے باز پرس کی گئی کہ سرنگا پٹم کی فتح کے بعد ٹیپو سلطان کا جو کتب خانہ ہاتھ آیا تھا ،وہ اب تک لندن کیوں نہیں بھیجا گیا؟ لائبریری کے بارے میں کمپنی کا رویہ کچھ اس قسم کا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو کتابیں مفت مہیا کی جائیں اور قیمت ادانہ کرنی پڑے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے اپنی خوشی سے بہت سے قیمتی عطیات کتب خانے میں جمع کروائے۔ مہاراجہ بڑودہ نے بھی فارسی اور سنسکرت کی نایاب کتب دیں جب کہ بیش تر اپنے نوادرات کی قیمت وصول کرنا چاہتے تھے۔ 1870ء میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر اچھی کتابوں کی قیمت بھی ادا کرنی پڑے تو اس سے ذریغ نہ کیا جائے۔ یوں بہت سے نادر ذخائر قیمتی کتب خانے میں شامل کر لیے گئے۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد 1799ء میں جب سرنگا پٹم پر انگریزوں کا قبضہ ہوا تو اس کا قیمتی کتب خانہ بھی انگریز فوج کے ہاتھ آیا۔ یہ کتب خانہ عربی، فارسی، ترکی اور دکنی زبانوں کے دو ہزار نسخوں پر مشتمل تھا جو کئی سال تک فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں پڑا رہا۔ بعد میں کمپنی کے ڈائریکٹروں کے بار بار اصرار پر 1838ء میں یہ کتب خانہ انڈیا آفس لائبریری میں منتقل کر دیا گیا۔ 1857ء کے ہنگامے کے بعد جب دہلی کے لال قلعہ پر انگریزوں نے قبضہ کیا تو شاہانِ مغلیہ کی عظمتِ رفتہ کے ساتھ ان کا لٹا پٹا کتب خانہ بھی انگریز سپاہیوں کے ہاتھ لگا۔ شاہجہان کے وقت اس کتب خانے میں 20 ہزار نسخے تھے۔ بہادر شاہ ظفر کے وقت اس کتب خانے کے بہت سے نوادرات ضائع ہو گئے۔ چنانچہ 1865ء میں انڈیا آفس لائبریری نے تقریباً تین ہزار چھے سو نسخے بھی اپنے ریکار ڈ میں شامل کر لیے۔ 1857ء میں جب ہندوستان میں جنگ آزادی شروع ہوئی تو اس کتاب خانے کا ناظم حارث ولسن تھا۔ لال قلعہ پر جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی بجائے برطانوی پرچم لہرایا گیا تو اس کتب خانے کو لیڈن ہال اسٹریٹ لندن کی عمارت سے ہٹا کر ’’کینن رو‘‘ کے ایک مکان میں منتقل کر دیا گیا اور میوزیم کو لائبریری سے ہمیشہ کے لیے علیحدہ کر دیا گیا۔ 1857ء کی جنگ کے بعد ہندوستان کے نظم و نسق کی نگرانی کے لیے لندن میں ایک الگ دفتر قائم کیا گیا جس کا نام انڈیا آفس رکھا گیا۔ اس دفتر کے ساتھ یہ تاریخی کتب خانہ بھی منسلک کر دیا گیا اور اسی وقت سے اس کا نام انڈیا آفس لیا جانے لگا۔ کتب خانے میں اردو کی مطبوعہ کتابوں کی تعداد20 ہزار بتائی جاتی ہے اور قلمی مسودے بھی سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ کتابوں کے علاوہ انڈیا آفس لائبریری میں تصویروں کا بھی ایک نادر ذخیرہ موجود ہے جن میں فوٹو گرافی اور مصور ی کے نمونے شامل ہیں۔ بیشتر تصویریں دورِ مغلیہ سے تعلق رکھتی ہیں جن کی مجموعی تعداد ساڑھے تین ہزار کے قریب ہے۔ ان میں داراشکوہ کا مشہور البم بھی ہے جو اس نے اپنی محبوب بیوی نادرہ بیگم کے لیے تیار کروایا تھا۔ اس میںایک سو چالیس تصاویر ہیں جن میں ہندوستان کے باشندوں سے لے کر معدنیات و نباتات تک ہر چیز کی عکاسی کی گئی ہے۔ خطاطی اور خوش نویسی کے بھی بعض بے مثال نمونے موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے قدیم پارچہ بافی کے نمونے بھی موجود ہیں مثلاً ڈھاکہ کی ململ، بنارس کی دری، کشمیر کی شالیں، دہلی کا گونا، لاہور کی سولسی، مرزا پور بنارس کے قالین، امرتسر کے دھسے شامل ہیں۔ نقشہ جات کا بھی ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ اگست 1947ء میں چونکہ برصغیر سے برطانوی قبضہ اٹھ گیا تھا۔ بھارت اور پاکستان دو آزاد ملک معرض وجود میں آچکے تھے۔ اس لیے وزیرِ ہند کا پرانا دفتر یعنی انڈیا آفس بھی ختم کردیا گیا۔ لیکن لائبریری کا نام بدستور انڈیا آفس لائبریری رہا۔ 1974ء میں انڈیا آفس لائبریری کو برٹش لائبریری میں ضم کر دیا گیا اور ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کو، جو اپنا حق ملکیت اس لائبریری پر جتاتے آرہے تھے، حتمی فیصلے سے قبل اس تمام علمی مواد کی مائیکرو فلم دینے کا حق تسلیم کر لیا گیا جس کی ان ممالک کو ضرورت ہو سکتی ہے۔ چنانچہ حکومت پاکستان نے برطانوی حکومت سے اس سلسلہ میں دو معاہدے کر لیے ہیں۔ جن کے تحت سرکاری ریکارڈ کے علاوہ مخطوطات، مطبوعات، مراسلات اور اخبارات کی مائیکرو فلم پاکستانی کتب خانوں اور تحقیقی اداروں کو فراہم کی جاتی ہیں۔
Bookmarks