میں اور میری آوارگی
پھرتے ہیں کب سے در بہ در اب اس نگر اب اُس نگر
اک دوسرے کے ہمسفر میں اور میری آوارگی
نا آشنا ہر رہگذر نہ مہرباں ہے اک نظر
جائیں تو اب جائیں کدھر میں اور میری آوارگی
ہم بھی کبھی آباد تھے ایسے کہاں برباد تھے
بے فکر تھے آزاد تھے مسرور تھے دلشاد تھے
وہ چال ایسی چل گیا ہم بُج گئے دل جل گیا
نکلے جلا کے اپنا گھر میں اور میری آوارگی
وہ مہوش وہ مہ رو وہ مہ کامل ہو بہو
تھیں جس کی باتیں کُو با کُو اُس سے عجب تھی گفتگو
پھر یوں ہوا وہ کھو گئی اور مجھ کو ضد سی ہو گئی
لائیں گے اس کو ڈھونڈ کر میں اور میری آوارگی
یہ دل ہی تھا جو سہہ گیا وہ بات ایسی کہہ گیا
کہنے کو پھر کیا رہ گیا اشکوں کا دریا بہہ گیا
جب کہہ کر وہ دلبر گیا تیرے لیے میں مر گیا
روتے ہیں اس کو رات بھر میں اور میری آوارگی
اب غم اٹھائیں کس لیے یہ دل جلائیں کس لیے
آنسو بہائیں کس لیے یوں جاں گنوائیں کس لیے
پیشہ نہ ہو جس کا ستم ڈھونڈیں بے اب ایسا صنم
ہوں گی کہیں تو کارگر میں اور میری آوارگی
آثار ہیں سب کھوٹ کے امکاں ہیں سب چوٹ کے
گھر بند ہیں سب کوٹ کے اب ختم ہیں سب ٹوٹکے
قسمت کا سب یہ کھیل ہے اندھیر ہی اندھیر ہے
ایسے ہوئے ہیں بے اثر میں اور میری آوارگی
جب ہمدم و ہمراز تھا تب اور ہی انداز تھا
اب سوز ہے تب ساز تھا اب شرم ہے تب ناز تھا
اب مجھ سے ہو تو ہو بھی کیا ہے ساتھ وہ تو وہ بھی کیا
اک بے ہنر اک بے صبر میں اور میری آوارگی
(جاوید اختر)
Bookmarks