نعیم جاوید
سنا ہے موسیقی اور راگوں میں چند گھرانوں کا غلبہ ہے اس کے برعکس گھریلو موسیقی یاگرہستی کی پاپ میوزک اور اس کے پکے راگوں میں کسی کی اجارہ داری نہیں۔ تھوڑا بہت ٹوہ میں لگے رہنے سے سماج کے کئی خوش پوش کھل کر سامنے آئیں گے بلکہ ان کے چبوتروں پر آپ کسی بہانے نہ صرف بیٹھی بلکہ دیکھیے اور اونچے اونچے سروں میں سنی بھی۔۔۔ دھڑام۔۔۔ چھن۔۔ آآ۔۔ تو۔ تڑاخ۔۔۔ تیری تو۔۔بچاؤ۔۔وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے خیال میں غصہ میں گھرکے سڈول مٹکے توڑناایک سنگدل عمل ہے کہ یہی وہ مٹکا ہے، جس نے ہیر کواپنے رانجھا سے ملنے کی آس دلائی تھی۔اس ایک مٹکے کے ڈوبنے پر شاعروں نے پانی کی ہر ایک لہر کو کوسا ہے۔اس بحری Scam پراور مٹکے کی بے وفائی پر جانے کتنے بے بحر شعر اُردو کے قارئین پڑھ کرڈوب کر مرنے کوتیارہیں۔ ہم نے ایک بار ایک سنگاڑہ صفت شوہر کو دیکھا جو چبھتی ہوئی گالیاں فضاؤں میں اچھال کر فضائی آلودگی پھیلارہا تھا۔ گالیوں کا موضوع تھا: عورت کومرد کی ڈانٹ پر آہستہ رونا چاہیے ورنہ عورت کی آواز، شرافت کی چلمن سے شقیں ہٹا کر سسکیاں لیتے ہوئے باہر تانک جھانک کرتی ہے ۔ جدید اصطاحیں گھڑنے والے ادارے کہتے ہیں کہ اونچی آواز میں بولنا صوتی دہشت گردی ہے۔منہ سے جھاگ اُڑانا۔آنکھوں سے لیزرکی شعائیں خارج کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ تن من کے بن مانس کو یہ شخص قابو نہ کرسکا یعنی وہ اخلاقی دہشت گردی کا مرتکب ہوا۔کہیں باہر سے سیکھ کر آیا ہے اور اپنے گھرکے سکھ چین کا دشمن ہے۔ ایسی انوکھی اخلاقی اقلیت کا ہر عمل غیر جمہوری گرداناجائے گا۔ اُف ! کیا غصہ واقعی ایساہوتا ہے، ہم نے اپنے دوست شوشہ خان سے پوچھا تو بولے کہ اس کا انحصار سامنے والے کی کمزوری پرمنحصر ہوتا ہے۔غصہ کرنے والے سے پوچھا ،تووہ کہیے گا کہ ہم نے کبھی نہیں کیا۔ہمیں آتا ہے نہیں اور کبھی آبھی جائے ،تو ہم نے کب مانا کہ وہ غصہ تھابلکہ وہ تو کھرا سچ تھا۔ جلالی (بزرگوں) کی بد خلقی جس معاشرے میں وضع داری اور کج کلاہی کا بانکپن ٹہرے ایسے میں مسیحا نفسی تو مجہول گردانی جائے گی جبکہ انور مسعودنے برہم مزاج سماج کے تشخص میں بے جا قناعت سے کام لے کر صرف ’’ایک ‘‘ شعر کھوجا ہے : آئی ہے ایک بات بہت کھل کے سامنے ہم نے مطالعہ کیا ہے سماج کا اک مالا ہے سارے گھرانوں میں مشترک گھرمیں ایک فرد ہے ٹیڑھے مزاج کا اب تو صورتحال بہ ایں جا رسید کہ گھرتو گھر،پوری بستی میں ایک فرد نہیں جوسیدھے مزاج کاہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ’’ غصہ ‘‘ ترقی کرکے ماہرین ِ نفسانفسی جو پختہ تر،خام کا ر اور غلط اندیش ہوتے ہیں، وہ اس باب میں کیا کہتے ہیں۔ پہلے کبھی غصہ قومی غیرت بن جاتا تو قومیں اپنی تاریخ بنادیتیں یا جغرافیہ بڑھادیتیں تھیں۔ اب تو قومی غیرت یا قومی مسائل پر ہمیں غصہ بھی نہیں آتا۔زیادہ سے زیادہ کاتب تقدیر کو کوس کراپنی شخصیت کو جلاب دے کر اپنے ذہن وبدن ہلکا کرلیتے ہیں۔ اب تو غصہ گھریلو صنعت کی طرح ایک محدود سرگرمی ہوگئی ہے۔ ٭…٭…٭