دیکھو پھر تم ہمیں رلانے بیٹھ گئے ھو
کاغذ لے کر چند پرانے بیٹھ گئے ھو
پہلے اپنی سانسوں کو ترتیب تو دے لو
دل کا کیا احوال سنانے بیٹھ گئے ھو
تھکن سے چور بدن کا بوجھ نہیں اٹھتا
اس کے لوٹ آنے کے بہانے بیٹھ گئے ھو
سایہ دار درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں
سورج پر الزام لگانے بیٹھ گیے ھو
ابھی ابھی گزرے ھیں پتھر مارے والے
پھر اس راہ پہ پتھر کھانے بیٹھ گئے ھو
پھر کاغذ اور قلم سے ناطہ جوڑ لیا ھے
دیوانے! کیا حشر اٹھانے بیٹھ گئے ھو



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote



Bookmarks