افلاس سے تھا سیّدہ پاک کا یہ حال
گھر میں کوئی کنیز نہ کوئی غلام تھا
گھس گھس گئی تھیں ہاتھ کی دونوں ہتھیلیاں
چکّی کے پیسنے کا جو دن رات کام تھا
سینہ پہ مشک بھر کے جو لاتی تھیں بار بار
گو نور سے بھرا تھا مگر نیل فام تھا
اٹ جاتا تھا لباسِ مبارک غبار سے
جھاڑو کا مشغلہ بھی ہر صبح شام تھا
آخر گئیں جناب رسول خدا کے پاس
یہ بھی کچھ اتفاق وہاں اذن عام تھا
محرم نہ تھے جو لوگ تو کچھ کر سکیں نہ عرض
واپس گئیں کہ پاس حیا کا مقام تھا
پھر جب گئیں دوبارہ تو پوچھا حضور نے
کل کس لئے تم آئیں تھیں کیا خاص کام تھا
غیرت یہ تھی کہ اب بھی نہ کچھ منہ سے کہہ سکیں
حیدر نے ان کے منہ سے کہا جو پیام تھا
ارشاد یہ ہوا کہ غریبان ِ بے وطن
جن کا کہ صُفّہ نبوی میں قیام تھا
میں ان کے بندوبست سے فارغ نہیں ہنوز
ہر چند اس میں خاص مجھے اہتمام تھا
جو جو مصیبتیں کہ اب ان پر گزرتی ہیں
میں اس کا ذمہ دار ہوں میرا یہ کام تھا
کچھ تم سے بھی زیادہ مقدّم تھا ان کا حق
جن کو کہ بھوک پیاس سے سونا حرام تھا
خاموش ہو کہ سیّدہ پاک رہ گئیں
جرأت نہ کرسکیں کہ ادب کا مقام تھا
یوں کی بسر ہر اہل بیت مطہّر نے زندگی
یہ ماجرائے دخترِ خیر الانام تھا
(علامہ شبلی نعمانی )