صحت مند تنقید




’’صحت مند تنقید‘‘ علامہ اقبال کے ہر چھوٹے بڑے کام میں اصول ہی رہا تھا۔ اقبال نے ترکوں کے ساتھ محبت برتتے ہوئے اندھا دھند پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا تھا جب جب اُن کو ضرورت محسوس ہوئی، اُنھوں نے پسندیدگی کے اظہار کے ساتھ ساتھ صحت مند تنقید بھی کی۔ان تنقیدی موضوعات کے مرکز میں ترکی میں مصطفیٰ کمال اتاترک کی اصلاحات ہیں۔ اتاترک ایک سیاسی لیڈر تھے۔ ترکوں نے اُن کی سربراہی میں اُس زمانے کی سپر پاور انگلینڈ، فرانس، اٹلی اور یونان جیسے متحدہ دشمنوں سے موت و حیات کی جنگ لڑکر کامیابی حاصل کی تھی اور ملک اور قوم نیست و نابود ہونے سے بچی تھی۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد اتاترک کے لیے یہ بھی ممکن تھا کہ برسر اقتدار آکر اپنے ملک کی پیشرفت و ترقی کے لیے کچھ کیے بغیر اپنی زندگی کے آخر تک اقتدار کی نعمتوں سے فائدہ اُٹھاتے رہیں، لیکن وہ ایک انقلابی ذہن کے مالک لیڈر تھے اور اُنھیں معلوم تھا کہ قدیم ادوار کے عادات و رواجات کو جاری رکھتے ہوئے یہ آزادی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ کوئی تبدیلی آنی تھی اور اتاترک یہ تبدیلی یا تبدلیاں لائے۔ اُس زمانے میں اُن کے سامنے دو الگ الگ دنیائیں تھیں: ایک استعماری قوتوں کی ترقی یافتہ دنیا اور دوسری نوآبادیاتی ملکوں کی پس ماندہ دنیا اور اُن دو دنیاؤں کے درمیان سے ایک نئی دنیا نکل رہی تھی ،جو دنیا کی نئے اور پرانے تمام اقدار کو مٹاکر اپنی ایک نئی راہ بنارہی تھی اور وہ تھی کمیونزم کی دنیا۔ کمیونزم نیا اور پرانا سب کچھ جلاکر آگے بڑھ رہا تھا اور اتاترک اُس آگ میں لپٹنا نہیں چاہتے تھے اور خود وہ غیر ترقی یافتہ دنیا سے نکل کر اور اُس کے تمام مضرات دیکھ کر آئے تھے۔ اِن حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اُن کے سامنے ایک ہی راستہ بچتا تھا: ترقی یافتہ ملکوں کی ترقیات سے فائدہ اُٹھانا! ایک عملی ذہن کا مالک لیڈر ہوتے ہوئے اُنھوں نے اپنے ملک و قوم کی بہبود و فلاح کی خاطراپنی نظر میں سب سے مناسب قدم اُٹھایا اور ترقی یافتہ ملکوں کے راستے پر چلنے کا فیصلہ کیا ،لیکن اُنھوں نے یہ کام چشم بستہ کورانہ انداز میں کہ جو مغرب میں ہے وہی اپنالیں، کی صورت میں نہیں کیا۔ ایک تجزیاتی اور تحقیقی عمل کے بعد اُنھوں نے بڑی تیزی سے ترقی یافتہ مغرب کی اچھی اقدار اپنائیں اور وہ جو اُن کے خیال میں اپنی قوم کے لیے غیر مناسب اور مضر ثابت ہوسکتا تھا، وہ اُسے نظر انداز کرتے رہے۔ اِس سلسلے میں وہ اتنے بڑے پیمانے کے انقلابات لارہے تھے کہ جن کو قبول کرنا ملک کے اندر بھی اور ملک سے باہر بھی آسان نہ تھا۔ ملک کے اندر مصطفیٰ کمال اتاترک کے سیاسی رقیب اور انقلابات کے مخالف ملک سے باہر جاکر اتاترک کی حکومت کے خلاف پراپیگنڈا کررہے تھے۔ محمد حمزہ فاروقی اپنی تصنیف ’’سفرنامۂ اقبال‘‘ میں رقمطراز ہیں: ’’اُن دنوں غازی رؤف بے لندن آئے ہوئے تھے۔ آپ بحریات درس و ترکی سے متعلق بعض نادر کتب کے لیے آئے تھے۔ لندن سے فراہمی ِ مواد کے بعد آپ بحریات ترکی کے متعلق کتاب لکھنا چاہتے تھے۔ اقبال اور مہر سے آپ کی لندن میں ملاقات ہوئی۔ رؤف بے نے آپ حضرات کا تعارف سلطان شامل مرحوم کے پوتے سعید شامل سے کرایا۔ ۱۵ اکتوبر کو غازی رؤف اور سعید شامل مہر صاحب کی قیامگاہ پر مولانا شوکت علی سے ملنے کے لیے تشریف لائے۔ ۱۶ اکتوبر کو سعید شامل اور غازی رؤف بے اقبال سے ملنے کے لیے تشریف لائے۔ یہ ملاقات تقریباً تین گھنٹے تک جاری رہی۔ رؤف بے نے بیان کیا کہ جدید ترکی میں مصطفیٰ کمال کی اصلاحات کے خلاف شدید رد عمل پایا جاتا ہے۔ عوام نے اُن کی اصلاحات، بالخصوص مذہبی اصلاحات کو قبول نہیں کیا، لیکن وہ کھلے اختلاف کی جرأت نہیں کرسکتے۔ اتاترک کی حکومت جبر و تشدد پر قائم تھی۔ جد و جہد آزادی میں شریک بہت سے لیڈر یا تو جلاوطن ہوگئے یا اُنھیں گوشہ نشیں ہونا پڑا۔ اُنھوں نے کمال اتاترک کی ایک عجیب عادت بتائی۔ آپ نے فرمایا کہ میدان جنگ میں اُن سے بہتر جرنیل ممکن نہیں۔ اُن کی تمام تر توجہات لڑائی پر مرکوز ہوتی ہیں۔ دشمن کا جہاں کہیں کمزور پہلو پاتے ہیں وہیں شدت سے حملہ کرتے ہیں، لیکن جنگ کے بعد ضبط کا بند چھوٹ جاتا ہے اور راگ رنگ میں بھرپور حصہ لیتے۔ رؤف بے نے مزید کہا: اگر ترک چاہیں تو انھیں فوراً ختم کرسکتے ہیں، لیکن یہ حرکت قومی مفاد کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ اُن کی غیر موجودگی میں متبادل قیادت ممکن نہیں۔ (ڈاکٹرخلیل طوق أر کی کتاب ’’ترک اور ترکی‘‘ سے ماخوذ) ٭…٭…٭