مسلم عاقل کی صفات



طالبہ کے نام صحیح ابن حبان میںحضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک روایت آئی ہے۔ اس میں مسلم عاقل کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ اس کو اپنے زمانہ سے باخبر ہونا چاہئے۔ یہ ایک بے حد اہم ہدایت ہے۔ آپ کو چاہئے کہ آپ صرف واقفِ دین نہ بنیں، بلکہ اسی کے ساتھ واقفِ زمانہ بھی بنیں۔ اس کے بعد ہی آپ موجودہ زمانہ میں دین کی صحیح خدمت کر سکتے ہیں۔ واقف زمانہ بننے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی کمیونٹی کے خلاف ہونے والے ظلم اور سازش کو جاننے والے بن جائیں۔ یہ میرے نزدیک سطحیت ہے نہ کہ علم۔ یہ ظواہر کو جاننا اور حقائق سے بے خبر رہنا ہے۔ اور علم بلا شبہہ یہ ہے کہ آدمی اصل حقیقت کو جانے، نہ یہ کہ اس کی نگاہ ظاہری چیزوں پر اٹک کر رہ جائے۔اگریہ مان لیا جائے کہ دوسری قومیں مسلمانوں کے خلاف سازش اور ظلم میںمصروف ہیں، تب بھی اصل جاننے کی بات یہ ہے کہ وہ کیا اسباب ہیں جنہوں نے ان قوموں کو یہ حیثیت دے دی کہ وہ ہمارے خلاف کامیاب سازشیں کرسکیں۔ وہ ہمارے خلاف اپنے ظالمانہ منصوبوں کی کامیاب تعمیل کریں اور ہمارے تمام اعاظم و اکابر اس کو روکنے میں مکمل طورپر عاجز ثابت ہوں۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی اصل کمی یہ ہے کہ وہ عصر حاضر سے ناواقف ہیں۔ وہ ماضی کو جانتے ہیں، مگر حال کی انہیں مطلق خبر نہیں۔ ان میںسے کوئی شخص اگر کچھ جانتاہے تو وہ بھی کچھ ظاہری چیزوں کو جانتا ہے، نہ کہ گہرے معنوں میں حقیقی حالات کو۔ دینی مدرسوں کے طلبہ اگر صرف حیوان کا سب بن کر نہیں رہنا چاہتے، بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو اسلام اور ملت اسلام کے احیاء میں مفید طورپر لگائیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ عصر حاضر کو اس کی گہرائیوں کے ساتھ جانیں، وہ موجودہ زمانہ کی ان تبدیلیوں سے واقفیت حاصل کریں جنہوں نے ہمارے مروجہ طریقوں کو عملی اعتبار سے بالکل غیر موثر بنا دیا ہے۔ جدید دعوتی امکانات انگلینڈ کی مشہور آکسفورڈ یونیورسٹی میںاسلامی مطالعہ کا ایک ادارہ کھلا ہے جس کا نام ہے: Oxford Centre of Islamic Studies اس کے افتتاحی اجلاس میں پرنس چارلس نے شرکت کی اور وہاں ۲۷ اکتوبر ۱۹۹۳ کو اسلام اور مغرب کے موضوع پر ایک مفصل تقریر کی۔ انھوںنے کہا کہ جس زمانہ میں ہمارے ملک میں کنگ الفرڈ مطبخی موضوعات پر کتابیں جمع کررہے تھے اسپین کے مسلمان علم کو ترقی دینے میں مصروف تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اسپین کے سلطان کے کتب خانہ میں اس وقت چار لاکھ کتابیں موجود تھیں۔ یہ بقیہ یورپ کے تمام کتب خانوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ تھیں۔ یہ اس لئے ممکن ہوا کہ مسلم دنیا نے چین سے کاغذ بنانے کا فن مسیحی یورپ سے چار سو سال پہلے حاصل کر لیا تھا۔ موجودہ زمانہ میں مغربی تہذیب نے جو مزاج پیدا کیا ہے اس کا ایک پہلو کھلا پن ہے۔ مذکورہ اقتباس اسی کی ایک مثال ہے ۔ پرنس چارلس کے الفاظ خود اپنی قوم کے خلاف ایک بیان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے نہایت کھلے طورپر اس پر اظہار خیال کیا۔ اور اس معاملہ میں مغرب کی کوتاہی اور اسلام کی برتری کی تصدیق کی۔ مغربی انسان کا یہ مزاج ہمارے لیے ایک عظیم دعوتی امکان ہے۔ شکایتی باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اگر خالص دعوتی ذہن سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ اہل مغرب اسلام کے لیے بہترین مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مغربی انسان کا غیر تقلیدی مزاج، اس کا کھلا پن اوراس کے اندر اعتراف کرنے کی اسپرٹ، اسلام کے لیے ایک موافق زمین کی حیثیت رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کا انسان بالقوۃ طورپر دین فطرت کے قریب آچکا ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ اس بالقوہ کو بالفعل میں تبدیل کر دیا جائے۔ اعتدال کا طریقہ حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں کو چاہئے کہ تم توسط و اعتدال کا طریقہ اختیار کرو۔ قصد یا توسط و اعتدال کا تعلق کسی ایک معاملے سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ مثلاً جب آدمی چلے تو وہ اعتدال کے ساتھ چلے۔ بولے تو وہ اعتدال کے انداز میں بولے۔ عبادات میںوہ اعتدال کا طریقہ اختیار کرے۔ انفاق اوراعانت میںبھی وہ معتدل رویہ اختیار کرے، وغیرہ۔ اسی طرح جب کسی سے اختلاف ہوجائے تو اختلاف میں بھی فریقین کو چاہئے کہ اعتدال پر قائم رہیں۔ وہ اختلاف کے وقت اعتدال کی حد سے باہر نہ چلے جائیں۔ مثلاً جب دو آدمیوں میں کسی معاملہ میںاختلاف ہوتو اولاً ان کو ایسا کرنا چاہئے کہ وہ سنجیدہ گفت وشنید کے ذریعہ اپنے اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اس طرح اختلاف ختم ہوجائے تو بہت اچھا ہے اور اگر اختلاف ختم نہ ہو تو انہیں اختلاف کے باوجود اتحاد کے اصول پر عمل کرنا چاہئے۔ ان کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے سے یہ کہہ دیںکہ آؤ ہم اس پر اتفاق کرلیں کہ ہمارے درمیان اختلاف ہے: Let's agree to disagree. قصد واعتدال متانت اور وقار کی روش کا دوسرا نام ہے۔ یہ کسی آدمی کے سنجیدہ مزاج ہونے کی ایک علامت ہے۔ جو آدمی اپنے قول و فعل میںاعتدال پر قائم ہو وہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ جذباتیت سے پاک ہے۔ وہ جب بولتا ہے تو سوچ کر بولتا ہے اور جب کرتا ہے تو وہ سوچ سمجھ کر کرتا ہے، وہ سطحیت پسندی سے پاک ہے۔ اس کا کردار اس کی عقل کے تابع ہے نہ کہ اس کے جذبات کے تابع۔ گھرایک تربیت گاہ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سب سے اچھا وہ ہے جواپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو اور میںتم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہوں۔ گھر کسی سماج کا ایک ابتدائی یونٹ ہے۔جوکچھ زیادہ بڑے پیمانہ پر پورے سماج میں پیش آتا ہے وہی گھر کے اندر چھوٹے پیمانہ پر پیش آتا ہے۔ آدمی کے اچھے یا برے ہونے کافیصلہ باہمی تعلقات کے درمیان ہوتاہے۔ ہر گھر گویا انہی تجربات کا ایک چھوٹا ادارہ ہے اور ہر سماج انہی تجربات کا ایک بڑا ادارہ ۔ ہر عورت یا مرد جب اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں تو اُن کو کبھی خوش گوار تجربہ پیش آتا ہے اور کبھی ناخوشگوار تجربہ، کسی معاملہ میں اُن کے اندر نفرت کے جذبات بھڑکتے ہیں اور کبھی محبت کے جذبات، کبھی وہ خوشی سے دوچار ہوتے ہیں اور کبھی ناخوشی سے، کبھی اُن کی انا کو تسکین ملتی ہے اور کبھی اُن کی اَنا پر چوٹ لگتی ہے، کبھی وہ اعتراف کی صورت حال میں ہوتے ہیں اور کبھی بے اعترافی کی صورت حال میں، کبھی حقوق کی ادائیگی کا موقع ہوتاہے اور کبھی حقوق کے انکار کا موقع، وغیرہ۔ گھر کے اندرپیش آنے والی یہ مختلف حالتیں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے اپنی تیاری کے مواقع ہیں۔ جو لوگ ایسا کریں کہ وہ ہمیشہ اپنے شعور ایمان کو زندہ رکھیں، وہ اپنا احتساب کرتے ہوئے زندگی گذاریں، اُن کو ہمیشہ آخرت کی پکڑ کا احساس لگا ہوا ہو۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ جب بھی مذکورہ بالا قسم کا کوئی موقع اُن کے سامنے آئے گا تو وہ متنبہ ہوجائیں گے اور صحیح اسلامی روش کو اختیار کریں گے۔ جو عورت اور مرد اپنے گھر کے اندر اس قسم کی ہوش مندانہ زندگی گذاریں، اُن کے لیے اُن کا گھر ایک تربیت گاہ بن جائے گا۔ اُن کے گھر کا ماحول اُنہیں ہر صبح و شام تیار کرتا رہے گا۔ اُن کی یہ زندگی اُن کے لیے اس بات کی ضمانت بن جائے گی کہ جب وہ گھر کے باہر سماجی زندگی میںآئیں تو وہ سماج کے اندر بھی اُسی طرح ایک حق پرست انسان ثابت ہوں جس طرح وہ اپنے گھر کے اندر حق پرست انسان ثابت ہوئے تھے۔ ایک آدمی جواپنے گھر کے اندر لڑتا جھگڑتا ہو وہ اسی طرزِ زندگی کا عادی بن جائے گا۔ جب وہ اپنے گھر سے باہر آئے گا تو یہاں بھی وہ لوگوں سے لڑنے جھگڑنے لگے گا۔ اپنے آفس میں، اپنے کاروبار میں ، روز مرہ کی زندگی میںوہ دوسروں کے ساتھ بھی اُسی طرح غیر معتدل انداز میں رہے گا جس طرح وہ اپنے گھر کے اندر غیر معتدل انداز میں رہ رہا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اُس کے گھر کے معاملات بھی بگڑ جائیں گے اور اُس کے باہر کے معاملات بھی۔ اسی طرح کچھ ایسے لوگ ہیں جو اپنے گھر کے اندر تو غیر مہذب انداز میں رہتے ہیں لیکن جب وہ باہر آتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ اُن کا رویّہ تہذیب اور شائستگی کا رویّہ بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کی نظر میں اچھے بنے رہیں۔ مگر یہ ایک منافقت ہے، اور اللہ کو منافقت پسند نہیں۔ کسی مسلمان پر جو دینی ذمہ داری ہے وہ صرف اس طرح ادا نہیں ہوجاتی کہ وہ مسجد میں پانچ وقت کی نماز پڑھ لے، رمضان کے روزے رکھ لے اور مکہ جاکر حج کرلے۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ لوگوں کے ساتھ اُس کا اخلاق اچھا ہو۔ انسانوں کے ساتھ سلوک میںوہ خدائی احکام کی پابندی کرتاہو، لوگوں کے درمیان وہ اس احساس کے ساتھ رہے کہ اُس کو اپنے ہر قول اور ہر فعل کاجواب خدا کو دینا ہے۔ موجودہ دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے۔ ایک طرح کی زندگی انسان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور دوسری طرح کی زندگی اُس کو جہنم کا مستحق بنا دیتی ہے۔زندگی کی اس امتحانی نوعیت کا تعلق گھر کے اندر کے معاملات سے بھی ہے اور گھر کے باہر کے معاملات سے بھی۔ با مقصد انسان کا کردار صہیب بن سنان الرومیؓ اُن اصحاب میں سے ہیں جنہوں نے دور اوّل میں اسلام قبول کیا۔ اُن کی پیدائش موصل میں ہوئی۔ اُنہوں نے مدینہ میں ۳۸ھ میں وفات پائی۔ بوقت وفات اُن کی عمر تقریباً ستّر سال تھی۔ اُن سے تین سو سات حدیثیں مروی ہیں۔صہیب رومیؓ کا تذکرہ تاریخ اسلام کی اکثر کتابوں میں آیا ہے۔ مثلاً طبقات ابن سعد، تاریخ ابن عساکر، وغیرہ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صہیب رومیؓ ایک اونچے خاندان کے فرد تھے۔ پھر وہ مکہ میں تجارت کرنے لگے۔ انہوں نے تجارت میں کافی دولت کمائی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے مدینہ کے لیے ہجرت فرمائی تو صہیب رومیؓ نے بھی ہجرت کا فیصلہ کیا۔ روایات بتاتی ہیں کہ اُن کی ہجرت کی خبر لوگوں کو ہوگئی۔ چنانچہ قریش کے کچھ نوجوان اُن کے پاس آئے۔ اُنہوں نے کہا کہ تم نے اپنا یہ مال مکہ میں حاصل کیا ہے۔ اس کو لے کر ہم تم کومدینہ نہیں جانے دیں گے۔ صہیب رومیؓ نے کہا کہ اگر میں تم کو اپنا مال دے دوں تو کیا تم مجھ کو جانے دوگے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ اس کے بعد صہیب رومی ؓنے اپنا سارا مال اُن کے حوالہ کردیا۔ حضرت صہیب رومیؓ کا یہ واقعہ جس کی تصدیق پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی، بے حد اہم ہے۔ اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ بامقصد انسان کا کردار کیا ہونا چاہئے۔ اس کا کردار یہ ہونا چاہئے کہ وہ اپنے مقصد کے علاوہ ہر دوسری چیز کو ثانوی (سیکنڈری) درجہ پر رکھے۔ وہ اپنے مقصد کو بچانے کی خاطر ہر دوسری چیز کی قربانی دینے کے لیے تیار رہے۔ مذکورہ واقعہ پر غور کیجئے۔ حضرت صہیب رومیؓ کے سامنے ایک صورت یہ تھی کہ وہ یہ سوچیں کہ یہ مال میں نے اپنی محنت سے کمایا ہے۔ وہ میرا ایک جائز حق ہے۔ مجھے اپنے حق سے محرومی کو قبول نہیں کرنا چاہئے۔ مجھے ہر حال میں اپنے مال کو اپنے قبضہ میں رکھنا چاہئے، خواہ اُس کے لیے مجھے ظالموں سے لڑائی لڑنی پڑے۔ دوسری صورت یہ تھی کہ وہ یہ سوچیں کہ مدینہ دعوت ِ اسلامی کا مرکز بن رہا ہے۔ وہاں پہنچ کر مجھے اس دعوتی مہم میں شریک ہونا ہے۔ اسلام کے اس قافلہ کے ساتھ مل کر مجھے چاہئے کہ میںاس تاریخی مہم کو اُس کی تکمیل تک پہنچانے کی کوشش کروں۔ صہیب رومیؓ نے محسوس کیا کہ یہ کم بہتر اور زیادہ بہتر کے درمیان انتخاب کا معاملہ ہے۔ اگر میں مال کے لیے ٹکراؤ کروں تو یہ کوئی عقل مندی نہ ہوگی۔ یہ مال کی خاطر مقصد کو قربان کرنے کے ہم معنٰی ہوگا۔ چنانچہ اُنہوں نے مقصد کو بچانے کی خاطر مال کو قربان کر دیا اور اُس سے دست بردار ہو کر مدینہ چلے گئے۔ اس طرح کے معاملات میں سوچنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک ہے منطقی انصاف کا طریقہ، اور دوسرا ہے عملی حل کا طریقہ۔ منطقی انصاف کا مطلب یہ ہے کہ خالص فنّی اعتبار سے صحیح اور غلط کو معلوم کیا جائے، جیسا کہ قانونی عدالت میں ہوتا ہے۔ اور دوسرا ہے عملی حل(practical solution) ۔ عملی حل کا مطلب یہ ہے کہ قانونی اعتبار سے صحیح اور غلط کی بحث میں نہ پڑا جائے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ عملی حالات کے اعتبارسے مسئلہ کا مثبت حل کیا ہے۔ پہلا طریقہ عام انسان کا طریقہ ہے اور دوسرا طریقہ با مقصد انسان کا طریقہ۔ عام انسان کو صرف یہ معلوم رہتا ہے کہ قانون کے مطابق، اُس کا حق کیا ہے۔ اس کے برعکس بامقصد انسان قانونی حق اور منطقی انصاف سے بلند ہو کر یہ سوچتا ہے کہ میرے لیے اپنے مقصد اعلیٰ کو حاصل کرنے کا مفید طریقہ کیا ہے۔ سوچ میں اس فرق کی بنا پر، عام انسان لوگوں کے ساتھ زر اور زمین کا جھگڑا کرتا رہتا ہے، کیونکہ اس کے سوا اُس کا اورکوئی نشانۂ حیات نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس با مقصد انسان کا نظریہ، حضرت مسیح کے الفاظ میں یہ ہوتا ہے کہ، کوئی تمہارا کرتا لینا چاہے تو اُس کو اپنا چُغہ بھی دے دو۔ یعنی دنیوی چیزوں کے معاملہ میں نزاع پیدا ہو تو فوراً یک طرفہ قربانی کے ذریعہ اُس نزاع کو ختم کردو، تاکہ مقصد کی طرف تمہارا سفر کسی خلل کے بغیر مسلسل طور پر جاری رہے۔اس طرح کے نزاعی معاملات میں عام انسان کا قول یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنا حق کیوں چھوڑیں، ہم انصاف سے دست بردار کیوں ہوں۔ مگر بامقصد انسان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ دنیوی حق کو لینے کی کوشش میں وہ ربّانی حق سے محروم ہوجائے گا۔ دنیوی انصاف کو حاصل کرنے کی لڑائی میں وہ آخرت کے انصاف کی میزان میں اپنے آپ کو بے قیمت کر لے گا۔ سوچنے کا یہی فرق دونوں کے عمل میں فرق پیدا کردیتا ہے۔ ایک، دنیا کی خاطر آخرت کو گنوا دیتا ہے، اور دوسرا، آخرت کی خاطر دنیا کو۔