حقیقت پسندی

اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک فرد اور دوسرے فرد یا ایک گروہ اور دوسرے گروہ کے درمیان نزاعات پیدا ہوتے ہیں، ایک، دوسرے کے درمیان اختلافات ظہور میں آتے ہیں ...حقیقت پسندی خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کا ایک قول ہے: ’’ دانش مند وہ نہیں ہے، جو شر کے مقابلہ میں خیر کو جانے بلکہ دانش مند وہ ہے ،جو یہ جانے کہ دوشر میں سے بہتر شر کون سا ہے‘‘۔ اجتماعی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک فرد اور دوسرے فرد یا ایک گروہ اور دوسرے گروہ کے درمیان نزاعات پیدا ہوتے ہیں، ایک، دوسرے کے درمیان اختلافات ظہور میں آتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ہمیشہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ معاملہ کو طے کرنے کی صورت کیا ہو۔ وہ کون سا رہنما اصول ہے، جس کی روشنی میں باہمی نزاعات کو طے کیا جائے۔ایسے موقع پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ معاملہ کو خیر اور شر یا انصاف اور بے انصافی کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے حصے میں شر نہ آئے بلکہ خیر آئے۔ وہ اپنے آپ کو بے انصافی سے بچائیں اورجو انصاف ہے اس کو حاصل کریں، لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کے لوگ اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔ ساری کوشش کے باوجود آخر میں انھیں شکایت اور نقصان کے سوا کچھ اور نہیں ملتا۔اس کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں کوئی بھی شخص اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ نہیں لے سکتا۔ اس طرح کے معاملہ میں ہر نزاع کے دو فریق ہوتے ہیں۔ کسی بھی فیصلہ کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ایک فریق کے ساتھ دوسرا فریق بھی اس پر راضی ہو۔ ایک فریق جس چیز کو خیر یا انصاف سمجھتا ہو، اگر دوسرا فریق اس کو تسلیم کرنے پر راضی نہ ہو تو اس کا نتیجہ دو طرفہ ٹکراؤ ہوگا اور ٹکراؤ ہمیشہ مسئلہ کو بڑھانے والا ہوتا ہے نہ کہ اس کو گھٹانے والا۔ایسی حالت میں دانش مندی کا تقاضا کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ معاملہ کو خیر اور شر یا انصاف اور بے انصافی کی نظر سے نہ دیکھا جائے بلکہ اس کو ممکن اور ناممکن کی نظر سے دیکھا جائے ، پھر جو چیز عملی طور پر ممکن ہے اس کو لیا جائے اور جو چیز عملی طور پر نا ممکن ہے اس کوچھوڑ دیا جائے۔ اس معاملہ کی ایک تاریخی مثال یہ ہے کہ بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں عربوں اور یہودیوں کے درمیان فلسطین کے مسئلہ پر نزاع پیدا ہوئی جو اس کے بعد پچاس برس تک چلتی رہی۔ یہودیوں کا یہ کہنا تھا کہ دو فریقوں کے درمیان امن کا معاہدہ ہو جائے، لیکن عرب اس کے لیے تیار نہ تھے۔ ان کا کہنایہ تھا کہ امن صرف عدل کی بنیاد پر ہوسکتا ہے، عدل نہیں تو امن بھی نہیں، مگر بے شمار قربانیوںکے باوجود عربوں کا یہ نظریہ فیل ہوگیا اور بیسویں صدی کے آخر میں انھوں نے عدل کی شرط کو پس پشت ڈال کر صرف امن کے مقصد کے تحت اسرائیل سے معاہدہ کر لیا۔ نظری طور پر یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ جب دو فریقوں میں نزاع کی صورت پیدا ہو جائے، تو ان کے درمیان امن کاقیام عدل کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ آئیڈیلزم کے اعتبار سے یہ نظریہ بہت اچھا ہے ،مگر عملی اسباب بتاتے ہیں کہ اس قسم کا آئیڈیل کبھی قابلِ حصول نہیں ہوتا۔ اس طرح کے نزاعی معاملات میں دانش مندی یہ ہے کہ آدمی نظری انصاف پر اصرار نہ کرے بلکہ عملی انصاف پر راضی ہو جائے۔ اصل یہ ہے کہ امن اور انصاف کو ایک دوسرے کے ساتھ بریکٹ کرنا بجائے خود غلط ہے۔ اس دنیا میں امن انصاف کے لیے نہیں ہوتا۔ امن کا تعلق مواقع کا رسے ہے، نہ کہ عدل و انصاف سے۔ امن اس لیے حاصل نہیں کیا جاتا کہ اس کے ساتھ انصاف حاصل ہو جائے۔ بلکہ امن اس لیے قائم کیا جاتا ہے تا کہ وہ مواقع کار حاصل ہوں جن کو استعمال کر کے عدل و انصاف تک پہنچا جا سکے۔ مثال کے طور پر ۱۹۴۸ میں فلسطین کی جو صورتحال تھی اس میں عربوں کو فلسطین کا بیشتر حصہ ملا ہوا تھا۔ اس وقت دانش مندانہ پالیسی یہ تھی کہ اس صورتحال کو قبول کر کے یہودیوں سے وہ صلح کر لی جائے جو پچاس برس بعد کی گئی۔ اگر ایسا کیا جاتا تو اس کا زبر دست فائدہ ہوتا۔ اس طرح عربوں کے لیے ممکن تھا کہ وہ امن قائم کر کے اپنے تعمیرو استحکام کی جد وجہد شروع کر دیں۔ پچھلے پچاس برس میں انھوں نے انصاف کے حصول کے نام پر بے شمار دولت ضائع کی ہے۔ اور لاکھوں قیمتی جانوں کا نقصان کیا ہے۔ قیام امن کی صورت میں ان کا یہ تمام سرمایہ تعمیر و استحکام کے محاذ پر لگ جاتا۔ اس مثبت پالیسی کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ ان تمام چیزوں کو لڑائی کے بغیر کامیاب طور پر حاصل کر لیتے ،جس کو وہ لڑائی کے ذریعہ ناکام طو رپر حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس معاملہ کی بہترین مثال اسلام کے دور اول کا وہ تاریخی واقعہ ہے جس کو صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے۔ پیغمبر اسلام اور مشرک قبائل کے درمیان زبردست نزاع تھی۔ ان مشرکین نے آپ کو آپ کے وطن مکہ سے نکلنے پر مجبور کردیا تھا۔ اور مسلمانوں کے خلاف دوسری بہت سی نا انصافیاں کر رہے تھے۔پیغمبر اسلام اگر امن کے حصول کے لئے عدل کی شرط لگاتے تو دونوں فریقوں کے درمیان کبھی امن قائم نہ ہوتا۔ مگر آپ نے یہ کیا کہ عدل و انصاف کے سوال کو الگ کر کے مشرکین سے گویا ’’ امن برائے امن‘‘ کے اصول پر صلح کر لی۔ اس امن کو آپ نے کام کے ایک موقع کے طور پر لیا اور اس کو اسلام کی تعمیر و استحکام کے لیے استعمال کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف دو سال کے اندر مزید اضافہ کے ساتھ وہ سب کچھ حاصل ہوگیا، جس کو آپ نے بظاہر معاہدہ امن کے وقت کھودیا تھا۔ دانش مندی کا یہ اصول جس طرح اجتماعی نزاعات کے لیے ہے،اسی طرح وہ انفرادی نزاعات و اختلافات کے لیے بھی ہے۔ انفرادی معاملات میں بھی کامیابی کا واحد طریقہ یہی ہے کہ خیر اور شر یا صحیح اورغلط کی بنیاد پر معاملات کو طے کرنے کے بجائے ممکن اور ناممکن کی بنیاد پر ان کو طے کیا جائے۔گھرکے اندر دو مردوں یا دو عورتوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو تو یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ حق کیا ہے اور ناحق کیاہے بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ عملی حالات کے اعتبار سے ممکن کیا ہے اور ناممکن کیاہے۔ حق اور ناحق یا صحیح اورغلط کی بحث میں پڑنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اختلاف کبھی ختم نہ ہوگا۔ اس کے برعکس اگر آپ ممکن پر راضی ہوجائیںتو بیک وقت آپ کو دو فائدے حاصل ہوں گے۔۔۔اختلاف کا فوری خاتمہ اور مواقعِ کار کا حصول۔ یہی اصول تمام انفرادی نزاعات کے لیے ہے۔ زندگی کی سر گرمیوں کے درمیان ہر شخص کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ اختلاف اور نزاع کی صورتیں پیش آتی ہیں۔کبھی مالی اور کبھی غیر مالی۔ ایسے مواقع پر جو شخص حق اور باطل یا صحیح اور غلط کی بحث چھیڑے وہ بلاشبہہ غیر دانش مند انسان ہے۔ اس کے بجائے جو عملی تقاضوں کو سمجھے اور ان کی رعایت کرتے ہوئے ممکن پر راضی ہو جائے تو ایسا ہی شخص عقل مند ہے، اور یہی وہ شخص ہے جو اس دنیا میں کامیابی حاصل کرے گا۔ اجتماعی زندگی میںجب بھی کوئی نزاع پیدا ہو تو لوگوں کی توجہ تمام تر اس پر لگ جاتی ہے کہ ازروئے انصاف کیا ہو نا چاہئے یا ان کے نزدیک اس معاملہ میں حق کیا ہے اور پھر اس حق کے حصول کے لئے فریق ثانی سے لڑائی چھیڑ دیتے ہیں۔ یہ لڑائی اکثر سالہا سال تک جاری رہتی ہے اور اکثرکسی مثبت نتیجہ تک نہیں پہنچتی۔ اس طرح کے موقع پر دوسرا طریقہ یہ ہے کہ یہ سوچا جائے کہ مفروضہ حق کے حصول میں جو وقت اور طاقت خر چ ہوگی اس کو مقابلہ آرائی سے بچا کر اپنی مثبت تعمیر میں استعمال کیاجائے۔ ٹکراؤ ہمیشہ حق کے حصول کے نام پر کیاجاتا ہے، مگر عملی طور پر ٹکراؤ کا نتیجہ ہمیشہ یہ نکلتا ہے کہ اس کے دوران نہایت قیمتی مواقع ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس دنیا میں عقلمندی یہ ہے کہ ہر معاملہ میں یہاں عملی نقطہ نظر اختیار کیا جائے۔ ایک شخص اپنی ذاتی زندگی میں آئیڈیل کو اپنا نشانہ بنا سکتا ہے، مگر جب اجتماعی زندگی کا معاملہ ہو تو اس کو ہمیشہ پریکٹیکل بن جانا چاہئے۔ عبرت پذیری ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء (جلد ۱) میں محمد بن واسع سے نقل کیا ہے کہ ایک شخص بصرہ سے سوار ہوکر اُمّ ذر کے پاس آیا جب کہ ان کے شوہر ابوذر کا انتقال ہوچکا تھا۔ اس نے اُمّ ذر سے پوچھا کہ میںآپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ آپ مجھے حضرت ابو ذر کی عبادت کے بارے میں بتائیں۔ صحابی کی اہلیہ اُمّ ذر نے جواب دیا’’ وہ سارے دن اکیلے بیٹھے ہوئے سوچتے رہتے تھے ‘‘۔ اسی طرح ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء (جلد ۱) میں عون بن عبد اللہ بن عقبہ سے نقل کیا ہے۔ انھوں نے اُمّ الدرداء سے پوچھا کہ حضرت ابو الدرداء کا سب سے افضل عمل کیا ہوتا تھا۔ ان کی اہلیہ نے جواب دیا ’’ سوچنا اور عبرت پکڑنا‘‘۔ سالم بن ابی جعد کہتے ہیں کہ حضرت ابو الدرداء کے سامنے سے دو بیل گزرے۔ دونوں کو ان کے مالک نے کام پر لگا رکھا تھا۔ ایک بیل اپنے کام پر قائم رہا اور دوسرا رک گیا۔ حضرت ابو الدرداء نے یہ منظر دیکھ کر کہا ’’ اس میں بھی عبرت ہے‘‘۔ ( یعنی رکنے والے نے مالک کا ڈنڈا کھایا اور دوسرے نے نہیں، یہی معاملہ انسان کے ساتھ اس کا خدا کرے گا)۔ قرآن میں غور وفکر پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ یہ غور وفکر مومن کی مستقل صفت ہے۔ اسی سے آدمی کے اوپر معرفت خداوندی کے دروازے کھلتے ہیں۔ اسی سے اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اسی سے وہ اس درجہ احسان تک پہنچتا ہے ،جس کے متعلق حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ خدا کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ قرآن میں اہل ِایمان کی ایک صفت السائحون (زمین پر پھرنے والے) بتائی گئی ہے۔ اس کا مطلب بھی یہی ہے۔ سیاحت کا لفظ قدیم زمانہ سے مذہبی سفر کے لئے بولا جاتا رہا ہے۔ انسان کے بنائے ہوئے تمدن کے ماورا جو خدا کی دنیا ہے، وہ خدا کی صفات کمال کا براہ راست مظہر ہے۔ یہاں مخلوقات میںاس کا خالق دکھائی دیتا ہے۔ اپنے اس تخلیقی کارخانہ میں خدا نے ایسی نشانیاں رکھ دی ہیں، جو سوچنے والے کی آنکھیں کھول دیں۔ جو اس کے اندر ربانی شعور بیدار کریں، جو اس کو تڑپا کر اس کے رب سے ملادینے کا سبب بن جائیں۔ آدمی کا عمل اس کی سوچ کا نتیجہ ہوتا ہے۔ جتنا زیادہ سوچ گہری ہوگی اتنا ہی زیادہ گہرا نتیجہ نکلے گا اور سوچ میں جتنی کمی ہوگی اتنا ہی عمل میں کمی ہوجائے گی۔ اسلام کی بنیاد شعور پر قائم ہے۔ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے شعور کو زیادہ سے زیادہ بیدار کیا جائے۔ انسان کی فکری صلاحتیوں کو زیادہ سے زیادہ ابھارا جائے۔ انسانی دماغ کے سوئے ہوئے خانوں کوآخری حد تک متحرک کر دیا جائے۔ اسی شعوری بیداری پر اسلامی زندگی کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ باشعور لوگ ہی اعلیٰ ایمان کا تجربہ کرتے ہیں۔ باشعور لوگوں کی عبادت ہی زندہ عبادت ہوتی ہے۔ باشعور لوگ ہی یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ ان کی زندگیاں ربانی کردار کا نمونہ بنیں۔ باشعور افراد کے مجموعہ کا نام ہی صالح معاشرہ ہے۔ باشعور افراد ہی یہ طاقت رکھتے ہیں کہ وہ اسلام کے اصولوں پر ایک حقیقی نظام بنائیں۔
Bookmarks