نقش ایسے تیری یادوں کے بکھرجاتے ہیں
جیسے تقریر کے عنوان سَنور جاتے ہیں
دل تو شیشہ ہے یا شیشے سے بھی نازک تر
لوگ پتھر ہیں جو ٹکرا کے گُزر جاتے ہیں
دیکھتے ہیں جو اُسے غیر کی مَحفل میں کبھی
ہم اُداسی کے سمندر میں اُتر جاتے ہیں
دِل مِلا ہے ہمیں ایسا کہ اگر غم بھی مِلیں
اُن کو سینے سے لگائے ہوئے مَر جاتے ہیں



Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out
Reply With Quote

Bookmarks