نہ جانے زمانے کو کیا ہو گیا ہے
وہ اک باوفا بے وفا ہو گیا ہے
جسے بھول کر میں نے پوجا تھا یارو
وہ ظالم تو سچ مچ خدا ہو گیا ہے
قدم اب اکھڑنے لگے ہیں ہوا کے
کہ سینہ سپر اک دیا ہو گیا ہے
مرے دل کی کشتی ہے ساحل پہ لرزاں
وہ جب سے مرا ناخدا ہو گیا ہے
ستم اس قدر بڑھ گۓ ہیں ہیاں پر
مرا دیس تو کربلا ہو گیا ہے
جو کل تک مجھے اپنا دشمن لگے تھا
وہی میرا حرف دعا ہو گیا ہے
Bookmarks