حصارِ لفظ و بیاں میں گُم ہوں
ابھی تری داستان میں گُم ہُوںمیں دیکھ سکتی ہُوں دوستوں کو
مگر صفِ دشمناں میں گُم ہُوںبدن کا اپنا عذاب ہے اور
اسی عذاب زیاں میں گُم ہُوںیہ لوگ گھر کہہ رہے ہیں جس کو
میں ایک ایسے مکاں میں گُم ہُوںکہاں وہ لذت مسافتوں کی
میں منزلوں کے نشاں میں گُم ہُوںخبر نہیں موج دشت جاں کی
ہوَا ہُوں اور باد باں میں گُم ہُوںابھی کہا ں فرصتِ محبّت
ابھی میں کارِ جہاں میں گُم ہُوں
Bookmarks