google.com, pub-2879905008558087, DIRECT, f08c47fec0942fa0
  • You have 1 new Private Message Attention Guest, if you are not a member of Urdu Tehzeb, you have 1 new private message waiting, to view it you must fill out this form.
    + Reply to Thread
    + Post New Thread
    Results 1 to 5 of 5

    Thread: عبدالرحیم خان خاناں کا کتب خانہ

    Threaded View

    1. #1
      Administrator Admin intelligent086's Avatar
      Join Date
      May 2014
      Location
      لاہور،پاکستان
      Posts
      38,411
      Threads
      12102
      Thanks
      8,637
      Thanked 6,946 Times in 6,472 Posts
      Mentioned
      4324 Post(s)
      Tagged
      3289 Thread(s)
      Rep Power
      10

      عبدالرحیم خان خاناں کا کتب خانہ




      اشرف علی
      اکبر اعظم کے دور میں کتب خانوں کی کثرت تھی۔ ہر گلی اور کوچہ دار المطالعوں سے آراستہ تھا۔ اس کے امراء اور وزراء بھی بادشاہ وقت کی شگفتہ طبیعت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ رحیم خان خاناں ہنر مندوزراء میں ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔ اس کے باپ بیرم خان نے اکبر کی تربیت کی تھی۔ رحیم خان خاناں نے اپنے باپ سے ورثہ میں بہت کچھ حاصل کیا تھا، جس کی وجہ سے وہ اکبری دربار کا ایک روشن ستارہ بن کر جگمگایا۔ مؤرخین نے جہاں اکبری دربار کے اس رکن کی فراست و بصیرت اور اس کی بہت سی زبانوں پر دسترس رکھنے کی صلاحیتوں کی تعریف کی ہے ،وہاں انھوں نے اس علمی مرکز کا ذکر بھی کیا ہے، جہاں خان خاناں نے اپنی خدا داد قابلیت، سخن سنجی، علم نوازی اور بے مثل فیاضی کے جوہر کو جلا بخشی تھی۔ یہ مرکز اس کا ذاتی کتب خانہ تھا۔ مولانا شبلی اس کتب خانہ کی فضیلت اور جامعیت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’یہ کتب خانہ اس درجے کا تھا اور اس قدر علمی ذخیرے اس میں مہیا کیے گئے تھے کہ خود ایک اکیڈمی یا دار الحکومت کا کام دیتا تھا۔ عرفی، نظیری، ظہوری، شکیبی غرض اکثر شعرائے اکبری نے اپنے دیوان خود اپنے ہاتھ سے لکھ کر اس کتب خانے میں داخل کیے تھے۔ دربار اکبری کے اکثر با کمال اسی کتب خانہ کی پیداوار ہیں۔ اکثر شعراء، خوش نویس ضاع جن کو خان خاناں تربیت دینا چاہتے تھے، کتب خانہ کے کام پر مقرر ہوئے تھے اور ترقی کرتے کرتے نادر روزگار ہو جاتے تھے‘‘۔ اس عظیم کتب خانہ میں کتابوں کی فراہمی کے مختلف ذرائع تھے۔ مثلاً کتب خانہ میں بڑے بڑے علماء، شعرا، تصنیف و تالیف کا کام کرتے اور اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے کتب خانہ میں عطیہ کے طور پر جمع کرانا باعث فخر سمجھتے تھے۔ سلیقہ مند لوگ نایاب کتب کی تلاش و جستجو میں سرگرداں رہتے اور جو نسخہ یا خطاطی کا اعلیٰ نمونہ دستیاب ہوتا، اس کو کتب خانہ کے لیے حاصل کر لیتے۔ کتب خانہ کی نگرانی کا کام وقت کے بلند پایہ عالم کے پاس ہوتا تھا چنانچہ عبدالسلام اور شجاع جیسے با کمال حضرات عرصہ دراز تک اس کتب خانہ کے نگران رہے۔ ’’مآثررحیمی‘‘ کے مصنف نے مدت تک اس کتب خانہ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا تھا۔ سترھویں صدی عیسوی میں جب اہل یورپ کتب خانوں سے زیادہ مانوس نہ تھے، اس وقت بر صغیر میں متعدد کتب خانے موجود تھے۔ ٭…٭…٭



      کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن
      حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن

    2. The Following User Says Thank You to intelligent086 For This Useful Post:

      Moona (02-10-2016)

    + Reply to Thread
    + Post New Thread

    Thread Information

    Users Browsing this Thread

    There are currently 1 users browsing this thread. (0 members and 1 guests)

    Visitors found this page by searching for:

    Nobody landed on this page from a search engine, yet!
    SEO Blog

    User Tag List

    Tags for this Thread

    Posting Permissions

    • You may not post new threads
    • You may not post replies
    • You may not post attachments
    • You may not edit your posts
    •