حافظ شیرازی نے ایک مرتبہ اپنے محبوب کی دلربا ادائوں پر تحسین کی نگاہ ڈالی اور محبت کے ہاتھوں ایسے مجبور ہوئے کہ رخسار کے تل پر جان نچھاور کرنے پر کمر بستہ ہو گئے۔ اپنے ایک فارسی شعر میں انہوں نے محبوب کی خدمت میں یہاں تک ایثار قلب کیا کہ : دل تو کیا چیز ہے کابل و قندھار صدقے کہتے ہیں بادشاہ وقت کو حافظ شیرازی کا اندازِ فکر پسند نہ آیا۔ انہوں نے حافظ صاحب کو دربار میں طلب کر کے پوچھا: ’’کہ مجھے تو کابل قندھار فتح کرنے کے لیے خون کے دریا بہانے پڑے اور اس کے لیے ایک مدت لگی ہے اور تم عجیب قسم کے درویش ہو کہ محبوب کے خال کے بدلے دو سلطنتیں قربان کر رہے ہو؟‘‘۔ حافظ شیرازی یہ سن کر مسکرائے اور کہا ’’اگر میں اتنا سخی نہ ہوتا ،تو آج میری یہ حالت نہ ہوتی کہ میں بے مایہ ہوں‘‘۔ بادشاہ حقیقت میں اس مجازی رنگ کو سمجھ گیا اور حافظ شیرازی کو انعام و اکرام دے کر دربار سے رخصت کیا۔ ٭…٭…٭